اس متعلق استاد محترم مولانا طلحہ منیار صاحب کا مضمون اختصارا نقل کروں گا۔
.الجواب : عاشوراء کے دن وس علی العیال والی حدیث : پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مرفوعا ، اور حضرت عمر سے موقوفا ، اور ایک تابعی کی روایت سے مرسلامنقول ہے ،جن صحابہ کرام سے مرفوعا وارد ہے ، وہ یہ ہیں :
۞ حضرت جابر [شعب الإيمان 3512]
۞ حضرت ابن مسعود [شعب الإيمان 3513]
۞ حضرت ابو سعيد خدری [شعب الإيمان 3514]
۞ حضرت ابو هريرہ [شعب الإيمان 3515]
۞ حضرت ابن عمر [التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 10،12)]
۞ حضرت عمر پرموقوف روایت [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ] میںمیں
۞ اور ابن المنتشر تابعی کا بلاغ [شعب الإيمان 3516] مروی ہے ۔
بعض علماء حدیث اس حدیث کی تمام اسانید وطرق پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث مرفوعا ثابت نہیں ہے ، اور شرح صراحتا من گھڑت ہونے کا حکم لگاتے ہیں
۔ [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6/ 363) ]
*جبکہ ان کے مقابلہ میں بعض محدثین نے ان کو قبول کیا ہے ، اور بعض اسانید کو صحیح یا حسن کا مرتبہ دیا ہے ،ان میں بالخصوص امام بیھقی ، ابن القطان ، عراقی ، ابو زرعہ بن العراقی ، ابن حجر عسقلانی ، سیوطی رحمھم اللہ ہیں، ان کے اقوال ملاحظہ فرمائیپہنچ
*اور مذاہب اربعہ کی کتابوں میں بھی اس پر عمل کرنے کی گنجائش لکھی ہے ، اور یہ کہ سال بھر کی برکت کے بارے میں یہ عمل مجرب اور پائے ثبوت کو پہنچا ہوائےروایت
حنفیہ کےبعض فتاوی ملاحظہ فرمائیں :
۞ وسعت علی العیال کی روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے؛ لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابل استدلہے ہے؛ لیکن اس روایت سے کھچڑے اور حلیم پکانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ کھچڑا آج کل اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے اکے یہ لوگ روزہ رکھنے کے بجائے دن بھر کھچڑا کھاتے کھلاتے رہتے ہیں، جو منشأ نبوی کے بالکل خلاف ہے، نیز اس میں التزام مالا یلزم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ وسعت پر عمل کھچڑا پکانے پر ہی منحصر نہیں؛ بلکہ کسی بھی طکو دستر خوان وسیع کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔ (کتاب النوازل ج۱۷ ص ۱۸۸)۔
۞ عاشوراء کے روز شام کو وسعت دسترخوان ناجائز نہیں ہے ،بلکہ جائز اور باعث خیرو برکت ہے۔(فتاوی قاسمیہ ج۲ص۴۳۲)۔
۞ عاشوراء کے دن اہل وعیال کو اچھا اور خوب کھلانا حدیث و کتب فقہ سے ثابت ہے ، حدیث اگرچہ ضعیف بھی ہو پھر بھی فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کرنے میں ثواب ہے ، نیز فقھاء نے بھی اس حدیث کو قابلِ عمل فرمایا ہے۔واللہ اعلم۔(فتاوی دار العلوم زکریا ج۱ص۴۱۹)۔
۞ عاشورا کے دن اہل وعیال پر فراوانی کی حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔(نجم الفتاوی ج۱ص۲۹۶) ۔
خلاصہ کلام
محرم کے دنوں میں عموما اور دس محرم کے دن کا روزہ خصوصا باعث اجر وثواب و کفارہ سيئات ہے اور اس دن اہل و عیال پر رزق کی وسعت بھی ایک مستحب عمل ہے لیکن اس کے علاوہ جس قدر اعمال یا نمازیں یا قصے اس دن کے حوالے سے مشہور کئے گئے ہیں وہ سب غلط اور من گھڑت روایات ہیں
وللہ اعلم بالصواب
کتبہ عبدالباقی اخونزادہ
2 محرم الحرام 1439
کراچی