میں ان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گیا.. جب کھانے سے فارغ ھوئے تو میں نے دسترخوان کو لپیٹنا شروع کیا تاکہ میں جاکر دسترخوان جھاڑوں تو حضرت میاں صاحب نے میرا ھاتھ پکڑ لیا اور فرمایا.. ” کیا کر رھے ھو..؟ ”
میں نے کہا.. ” حضرت دسترخوان جھاڑنے جارھا ھوں.. ”
حضرت میاں صاحب نے پوچھا.. ” دسترخوان جھاڑنا آتا ھے..؟ ”
میں نے کہا.. ” حضرت ! دسترخوان جھاڑنا کون سا فن یا علم ھے جس کے لئے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ھو.. باہر جا کر جھاڑ دوں گا.. ”
حضرت میاں صاحب نے فرمایا.. ” اسی لئے تو میں نے تم سے پوچھا تھا کہ دسترخوان جھاڑنا آتا ھے یا نہیں..؟ معلوم ہوا کہ تمھیں دسترخوان جھاڑنا نہیں آتا..! ”
میں نے کہا.. ” پھر آپ سکھا دیں.. ”
فرمایا.. ” ہاں..! دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ھے.. ”
پھر آپ نے اس دسترخوان کو دوبارہ کھولا اور اس پر جو بوٹیاں یا بوٹیوں کے ذرات تھے ‘ ان کو ایک طرف کیا.. اور ہڈیوں کو جن پر کچھ گوشت وغیرہ لگا ھوا تھا اُن کو ایک طرف کیا.. اور روٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرّات تھے اُنکو ایک طرف جمع کیا.. پھر مجھ سے فرمایا..
” دیکھو ! یہ چار چیزیں ھیں.. اور میرے یہاں ان چاروں کی علیحدہ علیحدہ جگہ مقرر ھے.. یہ جو بوٹیاں ھیں، ان کی فلاں جگہ ھے.. بلی کو معلوم ھے کھانے کے بعد اس جگہ بوٹیاں رکھی جاتی ھیں وہ آکر ان کو کھالیتی ھے..
اور ان ہڈیوں کےلئے فلاں جگہ مقرر ھے.. محلے کے کتوں کو وہ جگہ معلوم ھے وہ آکر ان کو کھالیتے ھیں..
اور جو روٹیوں کے ٹکڑے ھیں.. اُن کو میں اس دیوار پر رکھتا ھوں.. یہاں پرندے، چیل کوّے آتے ھیں اور وہ اِن کو اٹھا کر کھا لیتے ھیں..
اور یہ جو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات ھیں.. تو میرے گھر میں چیونٹیوں کا بَل ھے اِن کو اُس بل میں رکھ دیتا ھوں.. وہ چیونٹیاں اس کو کھا لیتی ھیں.. ”
پھر فرمایا.. ” یہ سب اللہ جل شانہ کا رزق ھے.. اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں جانا چاھئے.. ”
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے تھے کہ اس دن ھمیں معلوم ھوا کہ دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ھے.. اور اُس کو بھی سیکھنے کی ضرورت ھے۔