(✍: مفتی سفیان بلند)
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (البقرة ١٧٣)
اس آیت کریمہ میں دوسرا حکم خون کی حرمت کا مذکور ہے، جس کے احکام مندرجہ ذیل ہیں:
1- دم یعنی خون کا مفہوم
أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ (المائدة ٣) وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ (البقرة ٨٤) وقد دَمِيَتِ الجراحةُ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .
خون یہ اصل میں دمی تھا (یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے) قرآن میں ہے :
حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ (المائدة ٣) تم پر مردار جانور اور (بہتا) خون، یہ سب حرام ہیں، دم کی جمع دمآء ہے، قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ (البقرة ٨٤) کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا
“دمیت الجراحة” زخم سے خون بہنا
“فرس مدمی” خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا
“الدمیة” گڑیا (جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو) “شجة دامیة” سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو۔ (مفردات القرآن)
“والدم” یعنی خون جاری یا سیال اور سورة انعام میں “دم مسفوح” کی قید خود موجود ہے:
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُه اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا (١٤٥: ٦)
اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ دم یعنی خون جو یہاں مطلق صورت میں ہے، وہ اسی “قیدِ مسفوحیت” کے ساتھ حرام ہے، اس پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ خون جاری حرام بھی ہے اور نجس بھی، نہ اس کا کھانا جائز ہے، نہ اس سے اور کوئی نفع اٹھانا جائز ہے، حدیث صحیح کی رو سے دو منجمد خون حلال ہیں، ایک جگر، دوسرے تلی، اور ان کی حلت پر فقہائے امت کا اجماع ہے، گو علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ کبد و طحال خون کی تعریف میں آتے ہی کب ہیں، وہ تو گوشت کی قسم کی چیزیں ہیں، نہ کہ خون کی قسم کی، اور اس تخصیص و استثناء کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ (ماجدی)
● حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو ایسے جانور ہمارے لئے حلال کر دیئے ہیں جو اپنی موت مرجائیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اور دو خون ہمارے لئے حلال کردیئے گئے ہیں یعنی جگر اور تلی۔ (احمد، ابن ماجه و دار قطنی مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٦٢)
المراد بالدم الجاری (معالم) یعنی السائل (مدارک) وحمل العلماء ھھنا المطلق علی المقید اجماعا (ابن العربی) اتفق العلماء علی ان الدم حرام نجس لا یوکل ولا ینتفع به (ابن العربی) أحلت لنا دمان الکبد والطحال اخرجه الدار قطنی (قرطبی) والصحیح انه لم یخصص وان الکبد والطحال لحم یشھد بذلک العیان الذی لایعارضه بیان ولا یفتقرالی برھان (ابن العربی)
2- خون سے متعلق اہم مسائل
١- ذبح کے بعد گوشت میں لگا ہوا خون پاک ہے
○ حرام خون صرف بہنے والا خون ہے تو جو خون ذبح کے بعد گوشت میں لگا رہ جاتا ہے وہ پاک ہے، فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین عظام اور امت کا اس پر اتفاق ہے، اسی طرح مچھر، مکھی، کھٹمل وغیرہ کا خون بھی ناپاک نہیں لیکن زیادہ ہوجائے تو اس کو بھی دھونا چاہیئے۔ (معارف القرآن بحوالہ جصاص)
○ رگوں کا خون بہ جانے کے بعد جو خون گوشت میں رہ جاتا ہے، وہ حرام نہیں ہے، اگر گوشت بغیر دھوئے بھی پکا کر کھالیا جائے تو وہ پاک ہے، تاہم نظافت کا تقاضا ہے کہ اسے دھو لیا جائے، مگر اس کی حلت میں کوئی شبہ نہیں۔ (معالم العرفان)
○ قرطبی نے لکھا ہے کہ خون حرام ہے جب تک اس میں عموم بلویٰ نہ ہو اور عوم بلویٰ معاف ہے اور عموم بلویٰ کی وجہ سے جو خون معاف ہوتا ہے اس سے مراد وہ خون ہے جو گوشت اور رگوں میں ہوتا ہے، یہ بدن میں اور کپڑے میں تھوڑا ہو تو اس میں نماز پڑھی جاتی ہے۔
٢- خون کے کھانے پینے اور خرید و فروخت کا حکم
○ جس طرح خون کا کھانا پینا حرام ہے، اسی طرح اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے، اور جس طرح تمام نجاسات کی خرید و فروخت بھی ممنوع اور اس سے نفع اٹھانا حرام ہے، اسی طرح خون کی خریدو فروخت بھی حرام ہے، اس سے حاصل کی ہوئی آمدنی بھی حرام ہے، کیونکہ الفاظ قرآنی میں مطلقا دم (خون) کو حرام فرمایا ہے جس میں اس کے استعمال کی تمام صورتیں شامل ہیں۔(معارف القرآن)
ہمارے دیار میں خون کھانے کا رواج نہیں ہے، قرآن کریم سارے عالم کے لئے ہدایت ہے، نزول قرآن کے وقت سے لے کر قیامت قائم ہونے تک جس علاقے میں جہاں بھی جس طرح سے بھی لوگ خون کھائیں، ان سب کے لئے قرآن نے حرمت کی تصریح کردی۔
بعض اکابر سے سنا ہے کہ اہل عرب خون کو آنتوں میں بھر کر تیل میں تل لیا کرتے تھے، پھر اسے کباب کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھاتے تھے۔ (انوار البیان)
○ خون کی حرمت کی حکمت یہ ہے کہ یہ اخلاق انسانی کو فاسد کرتا ہے، جسمانی امراض کے علاوہ یہ نجس چیز کہ جس کی نجاست بالذات انسان کو سخت دل کرتی ہے، اس لئے طبائعِ سلیمہ اس سے کلی طور پر نفرت رکھتے ہیں۔ (تفسیر حقانی)
٣- مریض کو دوسرے کا خون دینے کا مسئلہ
تحقیق اس مسئلہ کی یہ ہے کہ انسانی خون انسان کا جزء ہے اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس بھی ہے، اس کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل کرنا دو وجہ سے حرام ہو، اول اس لئے کہ اعضاء انسانی کا احترام واجب ہے اور یہ اس احترام کے منافی ہے، دوسرے اس لئے کہ خون نجاست غلیظہ ہے اور نجس چیزوں کا استعمال ناجائز ہے، لیکن اضطراری حالات اور عام معالجات میں شریعت اسلام کی دی ہوئی سہولتوں میں غور کرنے سے امور ذیل ثابت ہوئے :
اول یہ کہ خون اگرچہ جزء انسانی ہے مگر اس کو کسی دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لئے اعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ اور آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی، انجکشن کے ذریعہ خون نکالا اور دوسرے کے بدن میں ڈالا جاتا ہے، اس لئے اس کی مثال دودھ کی سی ہوگئی جو بدن انسانی سے بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نکلتا اور دوسرے انسان کا جزء بنتا ہے اور شریعت اسلام نے بچہ کی ضرورت کے پیش نظر انسانی دودھ ہی کو اس کی غذا قرار دیا ہے اور ماں پر اپنے بچوں کو دودھ پلانا واجب کیا، جب تک وہ بچوں کے باپ کے نکاح میں رہے، طلاق کے بعد ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، بچوں کا رزق مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے، وہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے یا ان کی ماں ہی کو معاوضہ دے کر اس سے دودھ پلوائے قرآن کریم میں اس کی واضح تصریح موجود ہے : فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ (٦: ٦٥) اگر تمہاری مطلقہ بیوی تمہارے بچوں کو دودھ پلائے تو اس کو اجرت و معاوضہ دیدو،
خلاصہ یہ ہے کہ دودھ جزء انسانی ہونے کے باوجود بوجہ ضرورت اس کے استعمال کی اجازت بچوں کے لئے دی گئی ہے اور علاج کے طور پر بڑوں کے لئے بھی جیسا کہ عالمگیری میں ہے :
ولابأسَ بان یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربه للدواء (عالمگیری ص ٤) اس میں مضائقہ نہیں کہ دوا کے لئے کسی شخص کی ناک میں عورت کا دودھ ڈالا جائے یا پینے میں استعمال کیا جائے،
اور مغنی ابن قدامہ میں اس مسئلہ کی مزید تفصیل مذکور ہے (مغنی کتاب الصید ٦٠٢/٨)
اگر خون کو دودھ پر قیاس کیا جائے تو کچھ بعید از قیاس نہیں کیونکہ دودھ بھی خون کی بدلی ہوئی صورت ہے اور جزء انسان ہونے میں مشترک ہے، فرق صرف یہ ہے کہ دودھ پاک ہے اور خون ناپاک، تو حرمت کی پہلی وجہ یعنی جزء انسانی ہونا تو یہاں وجہ ممانعت نہ رہی، صرف نجاست کا معاملہ رہ گیا، علاج و دواء کے معاملہ میں بعض فقہاء نے خون کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے، اس لئے انسان کا خون دوسرے کے بدن میں منتقل کرنے کا شرعی حکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو جائز نہیں مگر علاج و دواء کے طور پر اس کا استعمال اضطراری حالت میں بلاشبہ جائز ہے، اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ مریض کی جان کا خطرہ ہو اور کوئی دوسری دوا اس کی جان بچانے کے لئے مؤثر موجود نہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا ظن غالب ہو، ان شرطوں کے ساتھ خون دینا تو اس نص قرآنی کی رو سے جائز ہے جس میں مضطر کے لئے مردار جانور کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحةً مذکور ہے اور اگر اضطراری حالت نہ ہو یا دوسری دوائیں بھی کام کرسکتی ہوں تو ایسی حالت میں مسئلہ مختلف فیہا ہے، بعض فقہاء کے نزدیک جائز ہے، بعض ناجائز کہتے ہیں، جس کی تفصیل کتب فقہ بحث تداوی بالمحرم میں مذکور ہے۔ (معارف القرآن)
نوٹ : “اعضائے انسانی کی پیوند کاری” کے نام سے اہم رسالہ مؤلفہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تلخیص بقلم حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ملاحظہ فرمائیں !
انسانی اعضاء کی پیوند کاری اور خون کا مسئلہ
تالیف
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
تلخیص
حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تالیف “انسانی اعضاء کی پیوند کاری” کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں ان دونوں مسائل کے بارے میں متعدد علماء کرام (جن کے اسمائے گرامی حضرت مفتی صاحب نے تمہید میں ذکر کر دیئے ہیں) کی متفقہ تحقیق کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کے دلائل کی روشنی میں درج کی گئی ہے، اس کا مختصر سا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے، تفصیلی دلائل کے لئے اصل کتاب کا مطالعہ فرمائیے۔
تمہید
زیر نظر مسئلہ انسانی خون اور انسانی اعضاء کے تبادلہ کا معاملہ، اس زمانے میں ایک ابتلاء عام کا معاملہ ہے اور مسئلہ کتب فقہ میں منصوص نہیں جب اس کے متعلق پاکستان اور بیرون پاکستان سے متعدد سوالات آئے تو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے سنت اکابر کے مطابق مناسب سمجھا کہ انفرادی رائے کے بجائے ماہر علماء کی ایک جماعت اس میں غور و فکر اور بحث و تمحیص کرکے کوئی رائے متعین کرے چنانچہ اس کے لئے ایک سوال نامہ مرتب کر کے فقہ وفتویٰ کے مراکز پاکستان میں کراچی، ملتان، لاہور، پشاور وغیرہ اور انڈیا میں دیوبند، سہارن پور، دہلی وغیرہ میں بھیجے اکثر حضرات کے جوابات وصول ہوئے تو ان پر غور و فکر بھی اجتماعی مناسب تھا مگر ملک گیر وسائل بھی آسان نہ تھے، اس کے لئے جتنے وقت اور طویل فرصت کی ضرورت تھی اس کا میسر ہونا بھی دشوار تھا، اس لئے بحکم مالایدرک کله لا یترک کله کی صورت اختیار کی کہ صرف کراچی کے اہل فتویٰ علماء کا اجتماع کر کے ان پر غور کیا جائے اور یہ اجتماع جس نتیجہ پر پہنچے اس کو منضبط کرکے ملک اور بیرون ملک کے ارباب فتویٰ کے پاس بھیج کر ان کی آراء اور فتاویٰ حاصل کئے جائیں تاکہ یہ ماہرین اہل فتویٰ کا اجتماعی فتویٰ ہوسکے، اس اجتماع میں حسب ذیل حضرات نے شرکت کی اور مختلف تاریخوں کی پانچ چھ نشستوں میں باہر سے آئے ہوئے جوابات اور اس مسئلہ کے ہر پہلو پر غور کیا گیا اور اس معاملہ کے متعلق مذاہب اربعہ کی کتابوں کو سامنے رکھا گیا، یہ مجلس اتفاق رائے جس نتیجہ پر پہنچی، اس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔
مقدمہ
چند اصولی مسائل:
مسائل کی تفصیل سے پہلے چند اصولی باتیں سمجھ لینا ضروری ہے تاکہ آنے والے مسائل کے سمجھنے میں سہولت ہو۔
اول: ہر حرام چیز انسانیت کے لئے مضر ہے
خدائے حکیم و برتر نے جن چیزوں کو بندوں کے لئے حرام اور ممنوع قرار دیا ہے خواہ بظاہر ان میں کتنا ہی فائدہ نظر آئے، لیکن درحقیقت وہ انسان اور انسانیت کے لئے مضر ہیں اور نفع کے بجائے نقصان کا پہلو ان میں غالب ہے، یہ نقصان کبھی جسمانی ہوتا ہے، کبھی روحانی، پھر کبھی تو اس قدر واضح ہوتا ہے کہ ہر عام و خاص اسے جانتا ہے اور کبھی ذرا خفی ہوتا ہے، حاذق طبیب اور ماہر ڈاکٹر ہی جان سکتے ہیں اور کبھی اتنا لطیف ہوتا ہے کہ نہ افلاطون وارسطو کی عقل کی وہاں تک رسائی ہوسکتی ہے، نہ کسی جدید سے جدید آلہ کی مدد سے اسے دریافت کیا جاسکتا ہے، بلکہ صرف حاسہ وحی اور فراست نبوت ہی سے اسے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے، انی اعلم من اللہ مالا تعلمون۔
دوم : تکریم انسان اور اس کے دو پہلو
حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ظاہری و معنوی شرف و امتیاز بخشا ہے وہ شکل وصورت میں سب سے حسین اور علم و ادراک میں سب سے فائق پیدا کیا گیا اور اسے کائنات کا مخدوم و مکرم بنایا گیا ہے، اس تکریم و شرف کا ایک پہلو یہ ہے کہ تمام کائنات اسی کی خدمت پر مامور ہے، بہت سی چیزوں کو اس کی غذا یا دوا کے لئے حلال کردیا گیا ہے اور اضطراری حالت میں حرام چیزوں کے استعمال کی بھی اسے اجازت دی گئی ہے اور دوسرا پہلو یہ کہ : انسان کے اعضاء کو غذا و دوا کے لئے ممنوع اور ان کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔
سوم : علاج میں شرعی سہولتیں
اسلام کی نظر میں انسانی جان در حقیقت امانت الٰہیہ ہے جسے تلف کرنا سنگین جرم ہے، اس کی حفاظت کے لئے بڑے سامان تیار کئے گئے ہیں جن کے استعمال کا حکم ہے اور ایسی تدابیر اور علاج معالجہ کو ضروری قراردیا ہے جس سے مریض کی جان بچ سکے، مریض کی سہولت کے لئے نماز، روزہ، غسل، طہارت وغیرہ کے احکام الگ وضع فرمائیں ہیں، اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اضطرار کی حالت میں جان بچانے کے لئے کلمہ کفر بکنے کی (جو اسلام کی نظر میں بدترین جرم ہے) اجازت دے دی گئی، اسی طرح جو شخص بھوک سے مررہا ہو اس کے لئے سد رمق تک خنزیر اور مردار کھانے کو مباح بلکہ ضروری کر دیا گیا۔
چہارم : اضطرار کا صحیح درجہ کیا ہے؟
ناواقف حضرات ہر معمولی حاجت کو اضطراری حالت کا نام دے لیتے ہیں، اس لئے ضروری ہوا کہ اس کی تنقیح کر دی جائے۔
علامہ حموی شرح اشباہ میں لکھتے ہیں کہ یہاں پانچ درجے ہیں:
ضرورت (اضطرار) حاجت، منفعت، زینت، فضول۔
(غمزعیون البصائر شرح الا شباہ والنظائر- الفن الاول- القاعدۃ الخامسة: الضرریزال…الخ-۱ ؍۳۵۳- ط: ادارۃ القران والعلوم الاسلامیة)
اضطرار یہ ہے کہ ممنوع چیز کو استعمال کئے بغیر جان بچانے کی کوئی صورت ہی نہ ہو، یہی وہ اضطراری صورت ہے جس میں خاص شرائط کے ساتھ حرام کا استعمال مباح ہوجاتا ہے۔
حاجت یہ ہے کہ ممنوع چیز کو استعمال نہ کرنے سے ہلاکت کا اندیشہ تو نہیں لیکن مشقت اور تکلیف شدید ہوگی، اس حالت میں نماز، روزہ، طہارت وغیرہ کے احکام کی سہولتیں تو ہوں گی مگر حرام چیزیں مباح نہ ہوں گی۔
منفعت یہ ہے کہ کسی چیز کے استعمال کرنے سے بدن کی تقویت کا فائدہ ہوگا اور نہ کرنے سے نہ ہلاکت کا اندیشہ ہے، نہ شدید تکلیف کا اس حالت میں نہ کسی حرام کا استعمال جائز ہے نہ روزہ کے افطار کی اجازت ہے، کسی حلال چیز سے یہ نفع حاصل ہوسکتا ہو تو کرے، ورنہ صبر کرے۔
زینت یہ ہے کہ اس میں بدن کی تقویت بھی نہ ہو، محض تفریح طبع ہو ، ظاہر ہے کہ اس کے لئے کسی ناجائز چیز کے جواز کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے۔
فضول یہ ہے کہ تفریح سے بھی آگے محض ہوس رانی مقصود ہو۔
ہماری بحث چونکہ صرف اضطرار کی حالت سے ہے اس لئے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اضطرار کی حالت میں کسی حرام چیز کے استعمال کی تین شرطیں ہیں :
الف) مریض کی حالت واقعةً ایسی ہو کہ حرام چیز کے استعمال نہ کرنے سے جان کا خطرہ ہو۔
ب) یہ خطرہ محض وہمی نہ ہو بلکہ کسی معتمد حکیم یا ڈاکٹر کے کہنے کی بنا پر یقینی ہو اور کسی حلال چیز سے علاج ممکن نہ ہو۔
ج) اس حرام چیز سے جان کا بچ جانا بھی کسی معتمد حکیم یا ڈاکٹر کی رائے میں عادۃً یقینی ہو۔
ان شرائط کے ساتھ حرام چیز کا استعمال مباح ہوجاتا ہے، مگر پھر بھی بعض صورتیں اس سے مستثنیٰ رہیں گی، مثلاً ایک شخص کی جان بچانے کے لئے دوسرے کی جان لینا جائز نہیں، کہ دونوں کی جان یکساں محترم ہے۔
پنجم : غیر اضطراری حالت میں علاج کی شرعی سہولت
اگر اضطرار کی حالت تو نہ ہو (جس میں جان کا خطرہ ہوتا ہے) مگر بیماری اور تکلیف کی شدت سے مریض بے چین ہے (اسی حالت کو اوپر حاجت سے تعبیر کیا گیا) تو اس صورت میں حرام اور نجس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں چونکہ اس کا حکم قرآن وسنت میں صراحةً مذکور نہیں، اس لئے فقہاء امت کا اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک جائز نہیں، اور جمہور فقہاء مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں، یعنی کسی معتمد ڈاکٹر یا حکیم کی رائے میں اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو، اور اس حرام چیز سے شفا حاصل ہونے کا پورا وثوق ہو۔
ان مقدمات کی روشنی میں اب زیر بحث دونوں مسئلوں کا حکم لکھا جاتا ہے۔
پہلا مسئلہ : خون کا مسئلہ
سوال : ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : خون انسان کا جز ہے اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو نجس بھی ہے، انسان کا جز ہونے کی حیثیت سے اس کی مثال عورت کے دودھ کی ہوگی جس کا استعمال علاج کے لئے فقہاء نے جائز لکھا ہے۔
(الفتاوی الھندیة ،کتاب الکراہیة، الباب الثامن عشر : فی التداوی والمعالجات وفیه العزل واسقاط الولد- ۵؍۳۵۵- ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
خون کو بھی اگر اسی پر قیاس کر لیا جائے تو یہ قیاس بعید نہیں ہوگا البتہ اس کی نجاست کے پیش نظر اس کا حکم وہی ہوگا جو حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا اوپر مقدمہ میں ذکر کیا گیا یعنی :
۱- جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیئے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو خون دینا جائز ہے۔
۲- جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی “حاجت” ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو لیکن اس کی رائے میں خون دیئے بغیر صحت کا امکان نہ ہوتب بھی خون دینا جائز ہے۔
۳- جب خون نہ دینے کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو، اس صورت میں خون دینے کی گنجائش ہے، مگر اجتناب بہتر ہے، لما فی الھندیة “وان قال الطبیب: یتعجل شفاءک ،فیه وجھان” (المرجع السابق)
٤- جب خون دینے سے محض منفعت یا زینت مقصود ہو، یعنی ہلاکت یا مرض کی طوالت کا اندیشہ نہ ہو، بلکہ محض قوت بڑھانا یا حسن میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں خون دینا ہر گز جائز نہیں۔
سوال دوم: کیا کسی مریض کو خون دینے کے لئے اس کی خرید و فروخت اور قیمت لینا بھی جائز ہے؟
جواب : خون کی بیع تو جائز نہیں، لیکن جن حالات میں جن شرائط کے ساتھ نمبر اول میں مریض کو خون دینا جائز قرار دیا ہے، ان حالات میں اگر کسی کو خون نہ ملے تو قیمت دے کر خون حاصل کرنا صاحب ضرورت کے لئے جائز ہے، مگر خون دینے والے کو اس کی قیمت لینا درست نہیں۔
سوال سوم : کسی غیر مسلم کا خون مسلم کے بدن میں داخل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : نفس جواز میں کوئی فرق نہیں لیکن بہتر نہیں ہے کیونکہ کافر اور فاسق فاجر انسان کے خون میں جو اثرات خبیثہ ہیں، ان کے منتقل ہونے اور اس پر اثر انداز ہونے کا قوی خطرہ ہے، اسی لئے صلحائے امت نے فاسقہ عورت کا دودھ پلوانا بھی پسند نہیں کیا، اس لئے کافر اور فاسق فاجر انسان کے خون سے حتی الوسع اجتناب بہتر ہے۔
سوال چہارم : شوہر اور بیوی کے باہم تبادلہ خون کا کیا حکم ہے؟
جواب : میاں بیوی کا خون اگر ایک دوسرے کو دیا جائے تو شرعاً نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔ واللہ اعلم
دوسرا مسئلہ : اعضاء انسانی کا مسئلہ
سوال: کسی بیمار یا معذور انسان کا علاج دوسرے زندہ یا مردہ انسان کے اعضاء کا جوڑ لگا کر کرنا کیسا ہے؟
جواب: اس وقت تک ڈاکٹروں نے بھی زندہ انسان کے اعضاء کا استعمال کہیں تجویز نہیں کیا اس لئے اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں، بحث طلب مسئلہ وہ ہے جو آج کل ہسپتالوں میں پیش آرہا ہے، اور جس کے لئے اپیلیں کی جارہی ہیں، وہ یہ کہ جو انسان دنیا سے جارہا ہو، خواہ کسی عارضہ کے سبب یا کسی جرم میں قتل کئے جانے کی وجہ سے، اس کی اجازت اس پر لی جائے کہ مرنے کے بعد اس کا فلاں عضو لے کر کسی دوسرے انسان میں لگا دیا جائے، بظاہر یہ صورت مفید ہی مفید ہے کہ مرنے والے کے تو سارے ہی اعضاء فنا ہونے والے ہیں، ان میں سے کوئی عضو اگر کسی زندہ انسان کے کام آجائے اور اس کی مصیبت کا علاج بن جائے تو اس میں کیا حرج ہے، یہ ایسا معاملہ ہے کہ عام لوگوں کی نظر صرف اس کے مفید پہلو پر جم جاتی ہے اور اس کے وہ مہلک نتائج نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں جن کا کچھ ذکر شروع بحث میں آچکا ہے (اصل کتاب میں اس کے مضر پہلوؤں پر مفصل بحث کی گئی ہے، تلخیص میں وہ حصہ حذف کر دیا گیا)
مگر شریعت اسلام کے لئے جو انسان اور انسانیت کے ظاہری اور معنوی صلاح و فلاح کی ضامن ہے، اس کے لئے مضر اور مہلک نتائج سے صرف نظر کر لینا اور محض ظاہری فائدہ کی بنا پر اس کی اجازت دے دینا ممکن نہیں، شریعت اسلام نے صرف زندہ انسان کے کار آمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بیکار اعضاء واجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی رضا مندی اور اجازت سے بھی اس کے اعضاء و اجزا کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے کیونکہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے، تکریم انسان کو شریعت اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال میں کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدوم کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر رہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں اور نہ صرف شریعت اسلام بلکہ شرائع سابقہ اور تقریباً ہر مذہب وملت میں یہی قانون ہے۔ (فتاوی بینات ٢٧٨/٤)
ناشر : دارالریان کراتشی