سوال:میت کو دفن کرنے کے بعدقرآن کریم بآوازبلند پڑھنا کیساہے؟بعض لوگ سورہ یس وغیرہ سورتیں پڑھتے ہیں پھر دعا کرتے ہیں، ان کا یہ عمل شرعا کیسا ہے؟
سائل:فیصل احمد
﷽
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہے کہ احادیث طیبہ سے یہ بات ثابت ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعداتنی دیرقبر کےپاس ٹھہرکرمیت کےلیے دعائے مغفرت کرنا اور قرآن شریف پڑھ کر ثواب پہنچانا مستحب ہے جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم ہوسکتا ہے،اورابن عمر سے مروی ہے کہ سورۃ البقرۃ کا پہلا اور آخری رکوع پڑھنا مستحب ہے،لہذا میت کو دفن کرنے کے بعد قرآن پڑھنا ،ذکر واستغفار کرنا شرعا جائز ہے ،لیکن اس موقع پر بآواز بلندقرآن پڑھنا اور اس کو لازم سمجھنا درست نہیں،تاہم اگر زیادہ دیر تک قرآن پڑھناہو تو پہلے دعا کرکے مجمع کو فارغ کردیا جائے،پھرانفرادی طور پر جوپڑھنا چاہے پڑھے تاکہ عام لوگوں کوتکلیف نہ ہو۔
الفتاوى الهندية (1/ 166)
ويستحب إذا دفن الميت أن يجلسوا ساعة عند القبر بعد الفراغ بقدر ما ينحر جزور ويقسم لحمها يتلون القرآن ويدعون للميت، كذا في الجوهرة النيرة.
وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 235)
وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور ويفرق لحمه. (قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي – صلى الله عليه وسلم – إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم واسألوا الله له التثبيت فإنه الآن يسأل» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها. وروي أن عمرو بن العاص قال وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار، فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا، ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور، ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع رسل ربي جوهرة. ………………………………………………
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
19ربیع الثانی 1441