ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
منسٹر ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی، آئرلینڈ
آپ نے ”بغیر کام کئے کمانا“ جسے Passive Income بھی کہا جاتا ہے کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا جس میں کسی چیز میں ابتدائی سرمایہ کاری کردی جاتی ہے اور پھرمستقبل میں پیسے یعنی نفع ملتارہتا ہے۔ جی ہاں، اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئےایک سائنسی تحقیق کے مطابق سائبر کرمنلز نے اوسطاً ایک مہینے میں اکتالیس ہزار امریکی ڈالر کمائے جو کہ ماہانہ تقریباً نوے لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں ۔ کچھ دیگر سائبر کرمنلز نے اوسطاً بارہ لاکھ امریکی ڈالر تک کمائے جو کہ تقریباً چھبیس کڑور پاکستانی روپے ماہانہ بنتے ہیں۔ یہ کمائی ان سائبر کرمنلز نے کرپٹو جیکنگ Cryptojacking کی مدد سے کی جسے ڈرائیو بائی مائننگ Drive-by Mining بھی کہا جاتا ہے۔کرپٹو جیکنگ کیا ہے؟ کیسے کام کرتی ہے؟ ان سائبر کرمنلزنے اس سے اتنا پیسہ کیسے کمالیا؟ کیا ہم بھی کرپٹو جیکنگ کا دانستہ یا نادانستہ شکار بن سکتےہیں؟ کیا مستقبل میں کرپٹو جیکنگ کو ایک نئے بزنس ماڈل یعنی اشتہارات کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے؟
ہم میں سے ہر ایک نے ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ سے متعلق تو سنا ہی ہوگا اور ہمیں بالکل واضح ہے کہ ہوائی جہاز کا اغواکرنا اور پھر اس کو اپنےمذموم ذاتی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا ملکی اوربین الااقوامی قوانین کے لحاظ سےجرم ہے۔نیز شریعتِ مطہرہ بھی کسی کی چیز کو بغیر اُسکےمالک کی اجازت کے استعمال کرنے سے منع کرتی ہے۔بس یہی کچھ حال کرپٹو جیکنگ کا بھی ہے جس کے اندر کسی صارف کے کمپیوٹر یا موبائل کو بغیر اُسکی اجازت کے کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے عمل میں استعمال کیا جاتا ہے اور کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے عمل سے جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ کرپٹو جیکنگ کرنے والے رکھ لیتے ہیں۔
کرپٹو کرنسی مائننگ کا عمل بہت منافع بخش ہے مثلاً بٹ کوائن مائننگ پر سوا چھ بٹ کوائن انعام ملتا ہے جو کہ آج کے ریٹ کے حساب سے تقریباً دو کڑور اسی لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں ۔کرپٹو کرنسی مائننگ مختلف طریقہ کار سے کی جاسکتی ہےمثلاً کوئی شخص انفرادی طور پر اپنے ذاتی کمپیوٹر یا موبائل فون سے بھی مائننگ کرسکتا ہے مگر اس طریقے سے نفع کمانے کے مواقع تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسرا رائج طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ذاتی کمپیوٹر کو مائننگ پول کا حصہ بنادے اور پھر مائننگ پول اگر مائننگ کے عمل میں کامیاب ہوجائے تو اس کو جو منافع ملے وہ صارف کو بھی دے دے۔ تیسرا یہ کہ سائبر کرمنلزخفیہ طورپر آپ کے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو مائننگ کا عمل کروائے اور پھر خودمنافع حاصل کرلے۔عملی طور پر کرپٹو جیکنگ کرنے والے دنیا میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کمپیوٹرز سے بیک وقت مائننگ کا عمل کرواتے ہیں یا انہیں مائننگ پول سے جوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کے پاس اتنی کمپیوٹیشنل پاور آجاتی ہے جس سے وہ کرپٹو کرنسی مائننگ کا عمل تسلی بخش طریقے سے کرسکیں۔
سائبر کرمنلز کو کرپٹو جیکنگ کرنے سے ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ان کو مائننگ ہارڈ وئیر پر سرمایہ کاری نہیں کرنی پڑتی جس سے ان کی سرمایہ کاری اور آپریشنل اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوجاتے ہیں۔آپ اندازہ کیجئے کہ اس وقت اوسطاً ایک مائننگ کی مشین تقریباً چھ ہزار امریکی ڈالر کی ملتی ہے جو کہ بارہ لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں اور اگر پورا کنٹینر ان مائننگ ڈیوائسس کا لیا جائے تو تقریباً ایک لاکھ دس ہزار امریکی ڈالر کا ملتا ہے جو کہ سوا دو کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ نیز دوسرے سائبر حملوں کے مقابلے میں کرپٹو جیکنگ زیادہ پرکشش ہے کیونکہ سائبر حملوں سے حفاطت کرنے والی سائبر سیکورٹی کمپنیاں اور ادارے رینسم وئیر Ransomware پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ رینسم وئیر اُن سائبر حملوں کو کہا جاتا ہے جس میں سائبر حملہ آور سائبر حملوں کے ذریعے متاثرین سے تاوان وصول کرتے ہیں۔جبکہ کرپٹو جیکنگ کے اندر کوئی تاوان تو وصول نہیں کیا جاتا البتہ دوسرے کے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی مائننگ کی جاتی ہے جو کہ صارفین کیلئے فوراً اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی جتنا کہ دوسرے سائبر حملے جن کے اندر یا تو صارف اپنا پورا ڈیٹا ہی ضائع کردیتا ہے یا پھر اُسے تاوان دینا پڑتا ہے۔سائبر کرمنلز کے نفع کے بالمقابل عام صارفین کو کرپٹو جیکنگ سے جو نقصان ہوتا ہے اُن میں ان کے ہارڈوئیر کی اوورہیٹنگ ہے اور دوسرا اُن کے مائیکروپروسیسر کی کارکردگی میں کمی ہے۔
بنیادی طور پر کرپٹو جیکنگ کے کام کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کسی ویب سائٹ پر کرپٹو جیکنگ اسکرپٹ رکھا جاتا ہے۔ پھر جب بھی کوئی صارف اس ویب سائٹ پر آتا ہے تو ویب سائٹ آرکیسٹریٹر اسکرپٹ Orchestrator Script چلاتا ہے جو کہ آنے والے صارف کے کمپییوٹر کی جانچ کرتا ہے کہ اس میں کون سا آپریٹنگ سسٹم OS انسٹال ہے اور کتنے سی پی یو کے کور CPU Core قابل استعمال ہیں۔صارف کے کمپیوٹر کی جانچ پڑتال کے بعد ایک باہر کے کمپیوٹر سرور Server سے یا اسی ویب سائٹ سے کرپٹو مائننگ پے لوڈ Mining Pay Load صارف کے کمپیوٹر پر ڈاؤنڈ لوڈ کردیا جاتا ہے۔اس کے بعد کوڈ کے چھوٹے چھوٹے حصے جنہیں تھریڈ Thread بھی کہا جاتا ہے صارف کے کمپیوٹر پرچلائے جاتے ہیں اور پھر اس صارف کے کمپیوٹر کا کنکشن مائننگ پول کے سرور سے ویب ساکٹ کی مدد سے جوڑ دیاجاتا ہے۔اور پھر جو مائننگ کا عمل اس صارف کو کرنا ہے وہ مائننگ پول سے حاصل کرکے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے اور مطلوبہ ہیش Hashes کو ویب ساکٹ کی مدد سے مائنگ پول پر واپس اپ لوڈ کردیاجاتا ہے۔ عمومی طور پر سٹراٹم Stratum پروٹوکول کو ان مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔اوراس طریقے سے کسی دوسرے کے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو جیکنگ کی جاتی ہے۔
ٹڈ بٹ TidBit نے سن ۲۰۱۳ میں براؤزر بیسڈ مائننگ کی شروعات کی جس کا کوڈ ایم آئی ٹی کے طالبعلموں نے لکھا۔اسی طرح کوائن ہائیو CoinHive کرپٹو جیکنگ کے تناظر میں بہت مشہور ہوا۔ کوائن ہائیو ایک جاوا اسکرپٹ ویب سائٹ والوں کو دیتی تھی تاکہ ویب سائٹ والے اس کوڈ کو اپنی ویب سائٹ پر استعمال کرسکیں۔ پھر جب بھی کوئی صارف اُن کی ویب سائٹ پر آئے تو وہ خفیہ طور پر اپنی ویب سائٹ پر آنے والوں کی اجازت کے بغیر اس کے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی مائن کرلیں۔ ٹرینڈ مائیکرو Trend Micro کمپنی نے کوائن ہائیو CoinHive کرپٹو جیکنگ مال وئیر کوسب سے پہلے ڈھونڈا تھا۔ دنیامیں مشہور کرپٹو مائننگ سروسز ہیں ان میں DeepMiner, Coinhive, Minr, JSECoin, CoinImp وغیرہ شامل ہیں۔ مونیرو Monero اور بٹ کوائن Bitcoin وہ کرپٹو کرنسیاں ہیں جن کی مائننگ سب سے زیادہ کرپٹو جیکنگ کی مدد سے کی گئی۔
کرپٹو جیکنگ مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے مثلاً کمپیوٹر براؤزر کی مدد سے، اینڈروائڈ اپیلیکشنز کی مدد سے، تھرڈ پارٹی لائبریری کی مدد سے، براؤزر ایکسٹینشن کی مدد سے، راؤٹرز کی مدد سے یا بوٹ نیٹ کی مدد سے۔ان سب میں براؤزر بیسڈ کرپٹو جیکنگ سب سے مشہور ہے اور صارف کا براؤزر جتنی دیر کھلا رہے گا اتنی دیر کرپٹو مائننگ اسکرپٹ چلتا رہے گا اور کمپیوٹر مائننگ کے عمل میں مصروف رہے گا۔
کمپیوٹر کی دنیا میں سائبر حملے عام ہیں۔ ان سائبر حملوں کی مختلف اقسام ہیں اور ان میں سے ایک اہم قسم مال وئیر کی ہے۔ مال وئیر وہ سافٹ وئیر ہوتے ہیں جو کہ آپ کے کمپیوٹر پر انسٹال ہوجاتے ہیں اور پھر آپ کے کمپیوٹر کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ روایتی طور پر مال وئیر لانچ کرنے کیلئے کوئی فائل آپ کے کمپیوٹر پر انسٹال کرنی پڑتی ہے اور پھر وہ مسائل پیدا کرتی ہے مگر اب نئے قسم کے مال وئیر آگئے ہیں جن کو فائل لیس مال وئیر کہا جاتا ہے۔ یعنی اب ہیکر یا سائبر کرمنل کو آپ کے کمپیوٹر پر حملہ کرنے کیلئے کوئی فائل یا سافٹ وئیر انسٹال کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ براؤزر کی مدد سے آپ کے کمپیوٹر پر حملہ کرسکتا ہے۔ یعنی فائل لیس مال وئیر کے اندر کمپیوٹر پر موجود سافٹ وئیر کو استعمال کرتے ہوئے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکتاہے۔ کرپٹو جیکنگ بنیادی طور پر ایک مال وئیر ہے۔سن ۲۰۲۰ میں تمام سراغ لگائے گئے مال وئیر میں اکتالیس فیصد کرپٹوجیکنگ کا مال وئیر تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کرپٹو جیکنگ مال وئیر کا کتنا وسیع استعمال ہوتا رہا ہے۔ یعنی اب ہیکر یا اٹیکر کو آپ کے کمپیوٹر پر کوئی فائل انسٹال کرنے کی ضرورت نہیں ہےبلکہ اب وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر کی مدد سے آپ کے کمپیوٹر پر اٹیک کرسکتا ہے ۔ کرپٹو جیکنگ نے ہیکنگ کی دنیا میں ہیکرز کیلئے نئے مواقع کھولے ہیں کہ کسطرح سے نئے اقسام کے سائبر حملے کئے جاسکتے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں میکروٹیک راؤٹرز MikroTik Routers کرپٹو جیکنگ سائبر حملے سے شدید متاثر ہوئے۔انٹرنیٹ ٹریفک جو ان راؤٹرز سے گزرتاہے ان میں ہر باہر جانے والے کنکشن میں کرپٹو جیکنگ اسکرپٹ شامل کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ہر ویب سائٹ کوئی بھی صارف استعمال کرے گا جو کہ ان کے راؤٹرز سے لنک ہو وہ ان چوروں کو مائننگ کے نتیجے میں نفع پہنچائے گا ۔اس سائبر حملے میں سائبر کرمنلز کے پاس دس لاکھ سے زیادہ راؤٹرز کا کنٹرول تھا جو کہ تقریباً ستر فیصد دنیا بھر میں لگائے گئےراؤٹرز ہیں۔ انہی راؤٹرز کی مدد سے اوسطاً بارہ لاکھ امریکی ڈالر ماہانہ نفع کمایا گیا جو کہ ویب سائٹ بیسڈ کرپٹو جیکنگ کی مدد سے صرف اکتالیس ہزار امریکی ڈالر بنتا ہے۔اس سائبر حملے کی شدت کا اندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ کچھ ویب سائٹ کے بجائے یہاں پر دس لاکھ سے زیادہ راؤٹرز ہیں جو کہ اس کرپٹو جیکنگ کے حملے سے متاثر ہوئے۔
کرپٹو جیکنگ سے بچنے کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنے کمپیوٹر پرویب براؤزر پر جاوا اسکرپٹ کی تمام اپیلیکیشنز کو بند کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کرپٹو مائننگ کا سیشن ختم ہوجائے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ٹاسک مینیجر میں دیکھیں کہ کتنے پروسسز چل رہے ہیں اور وہ کتنی سی پی یو کی پروسسینگ پاور کو استعمال کررہے ہیں اور پھر غیر ضروری پروسسز کو ختم کردیا جائے۔ تیسرا طریقہ کار کرپٹو جیکنگ سے بچنے کا یہ ہے کہ ہم مال وئیر بائٹ Malwarebytes سافٹ وئیر اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کریں جس کی مدد سے ہم اس طرح کے تمام مال وئیرز سے بچ سکتے ہیں اور جو ہمیں آگاہی دے سکتا ہےکہ کون سی ویب سائٹ پر جانا رسکی ہوسکتا ہے۔
کرپٹو جیکنگ کا ایک متوقع استعمال ایک نئے بزنس ماڈل کے طور پر بھی پروان چڑھ رہا ہے اور وہ یہ کہ مروجہ طریقہ کار ویب سائٹ کا نفع کمانے کا یہ ہوتا ہے کہ ویب سائٹ پر اشتہارات ہوتے ہیں اور کوئی بھی صارف جو ان ویب سائٹ پر آئے گا وہ ان اشتہارات پر کلک کرے گا تو ویب سائٹ والوں کو منافع ملے گا اور اس کی مختلف اسکیمیں متعارف ہیں۔کرپٹو جیکنگ کرنے والی بعض کمپنیاں اب صارف سے اجازت لیتی ہیں کہ اگر آ پ کے کمپیوٹر براؤزر کو استعمال کرتے ہوئے ہم کرپٹو کرنسی مائننگ کا عمل کریں تو اس پر آپ کو انعام دیاجائے گا جیسےرعایت، پریئیم فیچر، کریڈٹ وغیرہ۔نیزاگر کرپٹو جیکنگ کو اشتہارات کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے یعنی ویب سائٹ کے مالکان منافع کمانے کےبجائے مختلف اشتہارات کی مہم مثلاً بینر ایڈز یا پے پر کلک والے اشتہارات استعمال نہ کریں بلکہ وہ ان تمام اشتہارات کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیں اور اُن کی جگہ کرپٹو جیکنگ کے اسکرپٹ کو استعمال کریں اور وہ باقاعدہ ویب سائٹ پر آنے والے صارفین سے اس کے متعلق اجازت بھی لے لیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طریقے سے کرپٹو جیکنگ سے پیسہ کمانا جائز ہے؟
اگر صارفین سے اجازت لی بھی جائے تو عام صارفین کو اس کی تکنیکی تفصیلات کا علم نہیں ہوتا لہذا اجازت لینا نہ لینا برابر ہی ہوتا ہے۔اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچھ صارفین کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس بات کی اجازت دے رہے ہیں اور ان کو مقابل میں کیا ملے گا۔ مثلاً جو کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں وہ کوکیز کے نوٹس کو بغیر پڑھے ہی تسلیم کرلیتے ہیں اور یہی کچھ حال کرپٹو جیکنگ کی صارفین سے اجازت لینے کی بھی شکل ہے۔ کرپٹو جیکنگ کو اشتہارات کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں مفتیانِ کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ یہ اسی طرح ہے کہ کوئی اپنی ویب سائٹ سے ناجائز اشتہارات مثلاً شراب کے اشتہارات استعمال کرکے پیسے کمائے لہذا جس طریقے سے ایسے اشتہارات سے نفع کمانا جائز نہیں بِعَینہٖ اسی طریقے سے کرپٹو جیکنگ کے اشتہارات کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا اور اس سے نفع کمانا جائز نہیں۔
خلاصہ یہ کہ کسی کے گھر کے باہراگر کوئی بیٹھ جائے اور اُس کے گھرکےوائی فائی کے سگنلز کو بغیر اُسکی اجازت کے استعمال کرے یا اگر کسی کے گھر کی بجلی اُسکی بغیر اجازت کے استعمال کی جائے تو جس طریقے سے یہ چوری ہے بِعَینہٖ اسی طریقے سے کرپٹو جیکنگ کے متعلق مفتیانِ کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کرپٹو جیکنگ کے اندر سب سے بنیادی مسئلہ تو یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر یا غیر قانونی طور پر اس کے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی مائننگ کا عمل کیا جارہا ہےاور یہ شرعاً جائز نہیں اور یہ چوری کے حکم میں آتا ہے۔ دوسرایہ کہ کرپٹو جیکنگ کے ذریعے کرپٹوکرنسی مائننگ کا عمل ہورہا ہے اورکرپٹو کرنسی مائننگ کا عمل غررِ کثیر ہے لہذا یہ دوسرا شرعی محظور ہے جس کی وجہ سے مفتیانِ کرام کرپٹو جیکنگ کےعمل کو شرعاً ناجائز قرار دیتے ہیں ۔
(نوٹ: ڈاکٹر مبشر کے اس کالم کا خلاصہ آئرلینڈ کے قومی ٹی وی اور ریڈیو نشریاتی ادارتی آر ٹی وی – برین اسٹورم RTÉ Brainstorm کی ویب سائٹ پر اُن کے اپنے قلم سے انگریزی میں یکم دسمبر ۲۰۲۲ کو بعنوان Are cyber criminals using your computer? شائع ہو چکا ہے۔)
کلماتِ تشکر
میں اپنے شیخ اور استادِ محترم حضرت مولانامفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمتہ اللہ علیہ کا انتہائی تہہ دل سے مشکورہوں کہ انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی اور خاص طور پر اس مضمون کو دیکھا، میری غلطیوں کی اصلاح فرمائی اور مجھے اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمایا جس سے اس مضمون کی افادیت بہت زیادہ بڑھ گئی الحمدللہ۔ میں اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت میرے اس مضمون کو امتِ مسلمہ کیلئے باعث خیر و برکت بنائے ، میری اس ادنیٰ سی کاوش کو قبول فرمائےاور ذخیرہ آخرت بنائے، آمین۔
کچھ مصنف کے بارے میں
ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی منسٹر ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (MTU) آئرلینڈکے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے بلاک چین کے موضوع پر تدریس و تحقیق انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۱ میں یونیورسٹی آف پیرسVI، فرانس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے آٹھ کتابیں لکھیں ہیں جن میں سے دو کتابیں بلاک چین ٹیکنالوجی سے متعلق ہیں، جس میں سے ایک کتاب کو باقاعدہ ٹیکسٹ بک کے طور پر آئرلینڈ میں ماسٹرز کے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بلاک چین کے موضوع پر اُن کے دسیوں تحقیقی مقالے دنیا کے بہترین تحقیقی جرائد کے اندر شائع ہوچکے ہیں۔نیز دو طالبعلموں نےبلاک چین کے موضوع پر اُن کی سُپرویژن میں پی ایچ ڈی آسٹریلیا سے مکمل کی ہے۔ وہ کئی بہترین تحقیقی مقالوں کے ایوارڈز وصول کرچکے ہیں۔ اُن کو کمپیوٹر سائنس کے شعبےمیں اُن کی تحقیق کی بنیاد پر مسلسل تین سال یعنی سن ۲۰۲۰ ، سن ۲۰۲۱ اورسن ۲۰۲۲ میں دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں کی فہرست میں میں شامل کیا گیا ۔