کریڈٹ کارڈ پرملنے والے پوائنٹس کا حکم

باسمہ تعالی

محترم مفتیان کرام دار العلوم کراچی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آں حضرات بخیریت و عافیت سے ہوں گے۔ مندرجہ ذیل مسئلہ پیش آیا ہے۔ جواب مع حوالہ مرحمت فرمائیں

مختلف بنکوں کے یہاں کریڈٹ کارڈ  استعمال کرنے پر  مستعمل (حامل البطاقہ) کو پوائنٹ ملتا ہے ۔بحوث فقہیۃ معاصرۃ جلد دوم میں جہاں پر حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اس طریقہ کار کے بارے میں بحث کی ہے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بندے کی سمجھ میں یہ بات آئی  کہ چونکہ یہ پوائنٹ ایک تبرع ہے مقرض کی طرف سے اسی وجہ سے اس کو ربا شمار نہیں کریں گے کیونکہ ربا اس وقت ثابت ہوگا جب تبرع مستقرض کی طرف سے ہو ۔ البتہ شامی اور دیگر فقہی کتابوں میں ربا کی تعریف اس طرح بیان ہوئی ہے کہ : (ھو)۔۔۔۔(فضل)۔۔۔۔((خال عن عوض)۔۔۔۔۔( بمعیار شرعی)۔۔۔۔(مشروط) ذلک الفضل (لاحد المتعاقدین) ای بائع او مشتر۔۔۔۔(فی المعاوضۃ)

(قولہ ای بائع او مشتر) ای مثلا فمثلھما المقرضان والراھنان۔ رد المختار 5/168

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مقرض کی طرف سے بھی جو تبرع مشروط ملتی ہے وہ ربا  شمار کیا جائیگا۔

اب بندے کو خلجان ہے کہ  ان پوائنٹ کو ربا شمار کرکے چھوڑدینا چاہیئے یا ان کو تبرع محض شمار کرکے اس سے فائدہ اٹھاؤں۔ امید ہے کہ آں حضرات بندہ کا اس خلجان کو رفع کرے۔

جزاکم اللہ خیرا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامدا ومصلیا

مذکورہ مسئلہ سے متعلق شرعی حکم وہی ہے جو “بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ”میں مذکور ہے، کیونکہ مقرض اور مستقرض کو کوئی ہدیہ یا نفع دے تو وہ سود میں داخل نہیں ہوتا ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مستقرض سے نفع لینے کی ممانعت کی جو علت ہے کہ مستقرض،مقرض کے دباؤ میں آکر اس کو نفع دیتا ہے اور مقرض اپنے قرض کی وجہ سے نفع حاصل کرتا ہے ، وہ علت یہاں نہیں پائی جاتی، کیونکہ مقرض کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آتا ،بلکہ وہ اپنے اختیار سے دیتا ہے ، مستقرض کسی بنیاد پر اس سے مطالبہ نہیں کرسکتا ، اور نہ ہی مستقرض کو کوئی ہدیہ دینے میں مقرض کا فائدہ ہے بلکہ وہ مقرض کی طرف سے محض تبرع ہے ،جو سود میں داخل نہیں۔

              اور سوال میں علامہ شامی ؒ کی  جس عبارت ( لاحد المتعاقدین۔۔۔ومثلھما المقرضان والراھنان) کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں اگرچہ ” المقرضان والراھنان” تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں،جس سے یہ شبہ ہوتا ہے  کہ مقرض اور مستقرض ، اس طرح مرتہن اور راہن  دونوں میں سے کسی کے لیے بھی زیادتی مشروط ہو تو وہ ربا میں داخل ہے، اور یہ اشکال اس وجہ سے اور بھی زیادہ قوی ہوجاتا ہے کہ “راہن” در حقیقت مقروض ہوتا ہے ، جبکہ مذکورہ عبارت میں “مقرض” کے ساتھ ساتھ “راہن” کے لیے مشروط زیادتی کو بھی ربا کہا گیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادتی خواہ مقرض کے لیے مشروط ہو یا مستقرض کے لیے ، دونوں صورتوں میں ربا ہے ؟لیکن اس کا جواب یہ  ہوسکتا ہے کہ یہاں تثنیہ کا صیغہ دو مختلف جہتوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور غالبا  یہ بتلانا مقصود ہے کہ اگر عقدِ قرض میں یا عقدِ رہن میں زیادتی مشروط ہو تو وہ مقرض و مستقرض ، اسی طرح مرتہن و راہن دونوں کے حق میں ربا ہے، مقرض و مرتہن کے لیے سود لینے کے اعتبار سے اور مستقرض و راہن کے لیے سود دینے کے اعتبار سے ۔اس عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ مستقرض کے لیے جو نفع مشروط ہو وہ بھی ربا ہے، چنانچہ شرح المجلہ میں جہاں اس بحث کو ذکر کیا گیا ہے  وہاں بائع و مشتری کے ساتھ مقرض و مرتہن کی صراحت کی گئی ہے ، اسی طرح شراح ِحدیث  میں سے علامہ مناویؒ نے فیض القدیر اور التیسیر بشرح الجامع الصغیر میں “کل قرض جر منفعۃ” کی تفسیر میں ” الی المقرض” کی قید لگائی ہے جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ مقرض کے لیے جو نفع مشروط ہو وہ ربا ہے ۔

واللہ سبحانہ اعلم

دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/530192060683377/

اپنا تبصرہ بھیجیں