فتویٰ نمبر:513
سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی کا کریڈٹ کارڈبناہو ا ہے جسمیں صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ نے کوئی چیز ایک ہزار روپے کی خریدیں تو اسمیں بینک دو پرسنٹ سروس چارجز کے نام پر لیتا ہے اور اسکا وقت ایک مہینے سے اوپر ہوجائے تو کچھ زائد پیسے لیتا ہے ۔
برائے کرم یہ سروس چارجز دینا اور مہینے سے اوپر ہوجانے سے زائد پیسے دینا جائز ہے یا نہیں ؟برائے کرم دونوں کا حکم علیحدہ علیحدہ واضح فرمادیں ۔
الجواب حامداً ومصلیاً
کریڈٹ کارڈ بینک سے لیتے وقت ایک مہینہ کے اندر رقم نہ دینے کی صورت میں سود ادا کرنے کی شرط ہوتی ہے جوکہ شرطِ فاسد ہے (۱)
اسلئے کریڈٹ کارڈ لینا اور مہینےسے اوپر ہوجانے کی صورت میں سود لینا دینا ناجائز ہے ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (5 / 84)
(وَ) لَا (بَيْعٌ بِشَرْطٍ) عَطْفٌ عَلَى إلَى النَّيْرُوزِ يَعْنِي الْأَصْلُ الْجَامِعُ فِي فَسَادِ الْعَقْدِ بِسَبَبِ شَرْطٍ۔۔فقط
التخريج
(۱)بحوث في قضايا فقهية معاصرة- القاضي محمد تقي العثماني – (1 / 37)
(أما إذا التزم المدعى عليه للمدعي أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا فله عليه كذا وكذا فهذا لا يختلف في بطلانه لأنه صريح الربا
مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 13828)
أما إذا التزم المدعى عليه للمدعي أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا فله عليه كذا وكذا فهذا لا يختلف في بطلانه لأنه صريح الربا
مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 9603)
وأما إذا التزم أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا، فعليه كذا وكذا فهذا لا يختلف في بطلانه لأنه صريح الربا