آپ کے سوال کا بغور مطالعہ کیا گیا جس کا حاصل اور سائل کی بتائی ہوئی زبانی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کسٹم کے ادارہ ( Contractor ) کے طور پر کام کرتے ہیں ، جس میں ان کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ سپلائی ( مہیا ) کرتے ہیں اور کسٹمر افسران کی وہ گاڑیاں جو گورنمنٹ کی طرف سے ان کو ملی ہوئی ہیں جب وہ ٹھیک ہونے آتی ہیں وہ آپ گیراج بھیجتے ہیں اور پھر اس کا بل اپنے پاس سے ادا کرتے ہیں ،ا ور گاڑی کے مالکان کو جو آپ بل بناکر دیتے ہیں اس میں اصل رقم پر مجموعی طور پر تیس فیصد اضافہ کے ساتھ مل جاتا ہے جس میں دس فیصد آپ کا ، دس فیصد چیف آفیسر اک اور دس فیصد AGPRکا شامل ہوتا ہے ۔
جنرل آئیٹم سپلائی کی صورت میں اصل رقم پر تقریباً ساڑھے انتالیس فیصد اضافہ کیاجاتا ہے ، جس میں پندرہ فیصد آپ کا اور دس دس فیصد چیف اکاؤنٹ آفیسر کا اور دس فیصد AGPR کا لگنے کے ساتھ ساتھ اس پر مزید ساڑھے چار فیصد تک سیلز ٹیکس شامل ہوتا ہے ۔
اگر صورتحال اسی طرح ہے تو ایسی صورت میں آپ ( سائل) کے لیے اپنی خدمات کے عوض طے شدہ فیصد کمیشن لینا جائز ہے ، بشرطیکہ اس میں غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام نہ لیاجائے البتہ وہ آفیسر ز کو سرکاری ملازم ہیں ان کو “Approve” کرنے کے لیے رکھاہے یا یہ ان کی ذمہ داریوں میں اس کو “Approve کرنا شامل ہے ان کو اس کام کی تنخواہ دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ان کے لیے تنخواہ کے علاوہ الگ سے کمیشن رکھنا جائز نہیں ، کیونکہ اپنی ذمہ داری ( فرائض منصبہ ) کو پورا کرنے پر کمیشن لینا رشوت ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔
لہذا اپنی خدمات کا معاوضہ لینا اورا سے بل میں شامل کرنا درست ہے ، جبکہ دیگر افسران کا کمیشن بل میں شامل کرنا جائز نہیں ،ا س سے حتی الامکان بچنا لازم ہےا س لیے سائل کو چاہیے ہے کہ اپنے افسران سے گفت وشنید کرکے اس معاملہ کو حل کرے تاہم ان کا حصہ نہ لگانے کی صورت میں اپنا جائز حق کسی طرح بھی نہ ملے اور اپنا حق و صول کرنے کی کوئی جائز صورت بھی نہ ہو تو ایسی مجبوری میں اپنا جائز حق کی وصولی کے لیے ان کا حصہ لگادیا تو اس پر اللہ سے خوب توبہ استغفار کرے ۔
جہاں تک ملازم کا تعلق ہے ، اگر اپنی ملازمت کے دوران یہ ناجائز کام کرنا پڑے تو ایسی صورت میں آپ اس ملازمت کو گناہ سمجھتے ہوئے جاری رکھیں ،ا س پر توبہ کرتے رہیں اور دوسری جائز ملازمت ایک بے روزگار شخص کی طرح تلاش کرتے رہیں اور جب بقدر ضرورت کوئی ذریعہ معاش مل جائے تو اس کو چھوڑ کر وہ اختیار کرلیں ۔
ا لبحر الرائق ( 6/286)
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
پی ڈی ایف فائل میں فتوٰی حاصل کرنے کےلیے لنک پر کلک کریں :