کورونا وائرس کی وجہ سےحالتِ احرام میں ماسک پہننے اور سینیٹائزر لگانے کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ موجودہ وبا  کرونا    19 کی وجہ سے عمرہ تقریبا چھ ماہ بند رہنے کے بعد اب سترہ صفر  1442 کو سعودی حکومت کے فرمان کے مطابق کچھ خاص طریقہ کار اور پابندیوں کے ساتھ شروع ہو رہا ہے جس میں بالخصوص عمرہ کے احرام میں ماسک پہننے کی پابندی بھی ہے دوسرے سینی ٹائیزرز کا استعمال کہ اس میں الکوحل اور خوشبو شامل ہوتی ہے  اس سے بچنا بھی مشکل ہوگا ۔تو اس ضروری پابندیوں کے ساتھ عمرہ کرنا کیسا ہے ، یعنی اس کا کیا حکم ہوگا؟براہ کرم آگاہ فرما کر احسان فرمادیں  نوازش ہوگی۔

الجواب

(1)حالت احرام میں پورا چہرہ  یا چہرہ  کا چوتھائی حصہ ماسک وغیرہ سے ڈھانکنا اصلا ممنوع ہے، اور اسکی خلاف ورزی کرنے  پر جزا لازم ہوتی ہے،  موجودہ وبائی بیماری (کرونا) کی وجہ سے اگر ڈاکٹر نے ہمہ وقت چہرہ پر ماسک پہننے کو ضروری قرار دیا ہو اور حالت احرام میں ماسک پہننا ناگزیر ہو تو عذر کی وجہ سے ان شاء اللہ گناہ تو نہیں ہوگا لیکن اس کی جزا لازم ہوگی، البتہ عذر کی بنا پر جزا لازم ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ:

(الف)ایک دن یا ایک رات یا اس کی مقدار پورا چہرہ یا چہرہ کا چوتھائی حصہ ڈھانکنے سے درج ذیل تین کاموں میں سے کوئی ایک کام کرنا واجب ہے:

(1)دم یعنی ایک صحیح سالم بکرا یا بکری حدود حرم میں ذبح کرے۔

(2)  یا چھ مساکین کو فی مسکین پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔

(3)یا تین روزے (مسلسسل یا الگ الگ ) رکھے۔

(ب)ایک دن یا ایک رات کی مقدار سے کم اور ایک گھنٹہ یا اس زیادہ ڈھانکنے کی صورت میں :

(1)پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔

(2)یا ایک روزہ رکھے۔

(ج)ایک گھنٹہ سے کم ڈھانکنے کی صورت میں ایک مٹھی گندم یاا س کی قیمت صدقہ کرے۔

(1) فی غنیۃ الناسک (ص 396)

فاذاغطی جمیع راسہ او وجھہ والربع منھما کالکل ..یوما او لیلۃ والمراد مقدار احدھما فعلیہ دم وفی الاقل من یوم او من الربع صدقۃ۔

(2) وفیہ ایضا (ص 406) فصل اذا ارتکب المحظورات الابعۃ بعذر

ما ذکرنا من لزوم الدم عینا او الصدقۃ عینا ..انما ھو فی حالۃ الاختیار بان ارتکب المحظور بغیر عذر ،اما فی حالۃ الاضطرار بان ارتکبہ بعذر کمرض وعلۃ فان کان مما یوجب الدم فھو مخیر بین الصیام والصدقۃ والدم ولو موسرا..

وان کان مما یوجب الصدقۃ  فھو مخیر بین الصیام والصدقۃ..

ومن الاعذار الحمی والبرد الشدید والحر کذلک..ولا یشترط دوام العلۃ ولا ادائھا الی التلف بل وجودھا مع تعب و مشقۃ یبیح ذلک (لباب )وغیرہ۔ ومن الاعذار خوف الھلاک من البرد والمرض۔

ولعل المراد بالخوف الظن لا مجرد الوھم۔ فاذا غلب علی ظنہ ھلاکہ او مرضہ من البرد جاز لہ التغطیۃ مثلا۔

واذا وجب الدم مخیرا ان شاء ذبح فی الحرم او تصدق بثلاثۃ اصوع طعام او ستۃ من غیرہ علی ستۃ مساکین این شاء (در)لکل مسکین نصف صاع من بر او صاعا من غیرہ..او صام ثلاثۃ ایام ان شاء ولو متفرقۃ.

 

وان وجب الصدقۃ علی التخییر ان شاء تصدق بما وجب علیہ من نصف صاع او اقل علی مسکین او صام یوما (رد المختار )عن (اللباب)

(3) فی االدر المختار مع الشامیۃ (2ص 547-557)

(او ستر راسہ )..(یوما کاملا) او لیلۃ کاملہ وفی الاقل صدقۃ …وتغطیۃ ربع الراس او الوجہ کالکل… وان طیب او حلق او لیس بعذر خیر ان شاء ذبح فی الحرم او تصدق بثلاثۃ اصوع طعام علی ستۃ مساکین این شاءاو صام ثلاثۃ ایام ان شاء ولو متفرقۃ.

(قولہ او ستر راسہ )ای کلہ او ربعہ .ومثلہ الوجہ.

(قولہ یوما او کاملا او لیلۃ )الظاہر ان المراد مقدار احدھما فلو لبس من نصف النھار الی نصف اللیل من غیر انفصال او بالعکس لزمہ دم کما یشیر الیہ قولہ وفی الاقل صدقۃ شرح اللباب.

(قولہ وفی الاقل صدقۃ )ای نصف صاط من بر وشمل الاقل الساعۃ الواحدۃ ای الفلکیۃ وما دونھا خلافا لما فی حزانۃ الاکمل انہ فی ساعۃ نصف صاع وفی اقل من ساعۃ قبضہ من بر ،اہ بحر

(قولہ بعذر)قید الثلاثۃ و لیست الثلاثۃ قیدا فان جمیع محظورات الاحرام اذا کان بعذر ففیہ الخیارات الثلاثہ کما فی المحیط قھستانی

 ……..ومن الاعذار الحمی والبرد الجرح والقرح والصداع والشقیقۃ والقمل ولا یشترط دوام العلہ ولا اداؤبا الی التلف بل وجودبا مع تعب ومشقۃ یبیح ذلک۔

……..وفی البحر : ومن الاعذار خوف الھلاک ،ولعل المراد بالخوف الظن لا مجرد الوھم فتجوز التغطیۃ والستران غلب علی ظنہ.

(4) فی غنیۃ الناسک(ص 242)

ولا فرق فیہ بینھما اذا ارتکب المحظور ذاکرا او ناسیا عالما او جاھلا طائعا او مکرھا ..الا انہ اذا جنی عمدا بلا عذر فعلیہ الجزاء والاثم ،وان جنی بغیر عمد او بعذر فعلیہ الجزاء دون الاثم۔

(نوٹ)واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے مذکورہ عذر کی وجہ سے پورے چہرہ پر یا چوتھائی چہرہ  پر ماسک لگا کر مکمل عمرہ کرلیا لیکن ایک دن یا ایک رات سے کم وقت ماسک پہنا رہا تو اصولا صدقہ واجب ہونا چاہیے (جس کی تفصیل “ب” میں گذر چکی ہے) لیکن اس نقطہ نظر سے کہ  “عمرہ کے  پورے عمل میں (اگرچہ ایک دن یا ایک رات سے کم سہی ) چہرہ چھپانے کی ممانعت کا ارتکاب لازم آیا ہے “ بعض فقہاء کرام  رحمہم اللہ نے دم واجب ہونے کی طرف میلان ظاہر فرمایا ہے ،اس لیے ایسی صورت میں احتیاط اسی میں ہے کہ ایک دم مخیر ادا کیا جائے(جس کی تفصیل “الف” میں گذر چکی ہے)

یہ بھی واضح رہےکہ عمرہ کرنا فرض و واجب نہیں ہے  ،صاحب استطاعت کے لیے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے  اور جو شخص استطاعت نہیں رکھتا اس کے لیے سنت بھی نہیں ہے ،جبکہ احرام کے محظورات سے بچنا واجب ہے لہذا اگر پہلے سے معلوم ہوکہ عمرہ کرنے کی وجہ سے محظور کا ارتکاب ضرور لازم آئے گا تو ایسی صورت میں عمرہ فی الحال ترک بھی کیا جاسکتا ہے  جبکہ حرم میں جانا ضروری نہ ہو۔

وفی اللباب مع مناسک ملا علی القاری (ص301)

فاذا لبس مخیطا یوما کاملا او لیلۃ کاملۃ فعلیہ دم وفی اقل من یوم او لیلُ صدقۃ

وفی ارشاد الساری تحتہ:

قولہ: وفی اقل یوم او لیلۃ:قال العلامۃ العفیف فی شرح منسکہ:بقی ان یقال:لو ان شخصا احرم بنسک وھو لابس المخیط وادی ذلک النسک بتمامہ فی اقل من یوم ،وحل منہ ۔ ماذا یلزمہ بجنایۃ اللبس فی ذلک النسک؟ لم ار فی المسئلۃ نصا صریحا و مقتضی ما قالوہ من ان الارتفاق الکامل لا یحصل الا بلبس یوم کامل او لیلۃ کاملۃ ان تلزمہ صدقۃ۔ اللھم ان لا یوجد نس صریح بخلاف ذلک فلیکن المعول۔ واللہ اعلم۔

فان قلت:  التجرد عن لبس المخیط فی النسک مطلقا واجب سواء طال زمن احرامہ ام قصر ، و تقدیر اللبس بالیوم واللیلۃ باعتبار کمال الارتفاق ،انما ھو اذا طال زمن احرامہ۔ اما اذا قصر وذلک بان ادی نسکہ فی اقل من یوم او لیلۃ وحل منہ فالذی یظھر ان حصل لہ فی نسکہ ھذا ارتفاق کامل، وحینئذ یکون تارکا لواجب من واجبات احرامہ فینبغی ان یجب موجبہ، وھو الدم۔

قلت: ھذا کلام لا شک فی قیاسہ ،ولکن مع ذلک یحتاج الی نقل صریح فی ذلک ویللہ اعلم بما ھنالک ۔انتھی کلام العفیف۔

ورایت فی فتاوی تلمیذہ الفاضل عبداللہ افتدی عتاقی سؤالا فی ذلک تردد فی جوابہ بین وجوب الصدقۃ او الدم کما وقع لشیخہ۔ لکنہ مال فی آخر کلامہ الی الدم۔

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین (رد المختار ) ( 2/547)

(تنبیہ) ذکر بعض شرح المناسک :لو احرم بنسک وھو لامس المخیط واکملہ فی اقل من یوم  وحل منہ لم ار فیہ نصا صریحا ،ومقتضی قولھم ان الارتفاق الکامل الموجب للدم لا یحصل الا بلبس یوم کامل ان تلزمہ صدقۃ ۔ویحتمل ان یقال ان التقدیر بالیوم باعتبار کمال الارتفاق انما ھو فیما اذا طال زمن الاحرام ۔اما اذا قصر کما فی مسئلتنا فقد حصل کمال الارتفاق فینبغٰ وجوب الدم ،ولکن مع ھذا لا بد من نقل صریح (وفی غنیۃ الناسک ایضا ص 392)

وفی الدر المختار (ج2ص 472)

والعمرۃ فی العمر مرۃ سنۃ مؤکدۃ علی المذھب و صحح فی الجوھرۃ وجوبھا ۔قلنا المامور بہ فی الایۃ الا تمام وذلک بعد الشروع وبہ نقول۔

وفی الشامیہ تحتہ:

(قولہ: والعمرۃ فی العمر مرۃ سنۃ مؤکدۃ)ای اذا اتی بھا مرۃ فقد اقام السنۃ غیر مقید بوقت۔

(قولہ: و صحح فی الجوھرۃ وجوبھا )قال فی البحر واختارہ فی البدائع وقال انہ مذھب اصحابنا ومنھم من اطلق السنۃ وھذا لا ینافی الوجوب ۔والظاھر من روایۃ السنیۃ فان محمد نص علی ان العمرۃ تطوع۔ومال الی ذلک فی الفتح

وقال بعد سوق الادلۃ تعارض مقتضیات الوجوب والنفل فلا تثبت ویبقی مجرد فعلہ علیہ ؒالصلاۃ والسلام واصحابہ والتابعین وذلک یوجب السنۃ فقلنا بھا۔

(2)بطور تمہید یہ  بات واضح رہے کہ جو چیز عطر یا پرفیوم کی طرح بذات خود  خوشبو نہ ہو بلکہ اس میں خوشبو دار چیز شامل کی گئی ہو اس کا حکم خالص خوشبو کے حکم سے مختلف ہے ، اس کی نظیر حضرات فقہائے کرام کی عبارات میں “اشنان ” ہے جس میں خوشبو ملائی گئی ہو اور جس کے متعلق حضرات فقہائے کرام نے یہ فرمایا ہے کہ:

واما اذا خلط (الطیب ) بما یستعمل فی البدن کاشنان ونحوہ ففی شرح اللباب عن الملتقی:ان کان اذا نظر الیہ قالوا ھذا اشنان  فعلیہ صدقۃ وان قالوا ھذا طیب علیہ دم (الشامیۃ ج 2 ص 547)

غنیۃ الناسک  (ص249)میں ہے

  ولو غسل راسہ او یدہ باشنان فیہ الطیب فان کان من رآہ سماہ اشنانا فعلیہ صدقۃ الا ان یغسل مرارا فدم، وان سماہ طیبا فدم۔

بدائع الصنائع (ج2 ص 191 )میں ہے

وقالوا فی الملح یجعل فیہ الزعفران انہ ان کان الزعفران غالبا فعلیہ الکفارۃ لان الملح تبعا  فلا یخرجہ عن حکم الطیب ،وان کان الملح غالبا فلا کفارۃ علیہ لانہ لیس فیہ معنی الطیب

یعنی جو چیز بذات خوشبو نہ ہو بلکہ اس مٰں خوشبو ملائی گئی ہو تو اس میں غلبہ کا اعتبار کیا گیا کہ اگر خوشبو غالب ہے اور دیکھنے والا اس کو خوشبو سمجھتا ہے تو اس کے استعمال میں دم واجب ہے اور اگر خوشبو مغلوب ہے اور دیکھنے والا اسکو خوشبو نہیں سمجھتا بلکہ کوئی اور چیز ہی سمجھتا ہے تو دم واجب نہیں ہوگا بلکہ صدقہ واجب ہوگا۔

مذکورہ تمہید کے بعد حالت احرام میں سینی ٹائزر کے استعمال کے بارے میں حکم یہ ہے کہ:

(الف)اگر سینی ٹائزر میں کوئی خوشبو نہ ہو تو اس کاا ستعمال بلاشبہ جائز ہے۔

(ب)اور اگر خوشبودار ہو تو حالت احرام میں حتی الامکان اس کو جسم کے کسی بھی حصہ پر لگانے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے ،تاہم اس کے باوجود اگر مذکورہ بیماری کے عذر کی وجہ سے خوشبو دار سینی ٹائزر دونوں ہاتھوں میں لگا لیا  جبکہ اس میں خوشبو مغلوب ہو اور دواء کی غرض سے لگایا تو پونے دو  کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا یا ایک روزہ رکھنا واجب ہوگا ۔

واضح رہے کہ الکوحل اگر انگور یا کھجور کی شراب سے بنا ہو ا نہ ہو بلکہ کسی دوسری پاک چیز سے بنا ہوا ہو (عام طور پر پاک چیز سے بنا ہوا ہوتا ہے ) اور وہ سینی ٹائزر میں شامل ہو تو اس کی وجہ سے سینی ٹائزر کا استعمال ممنوع نہیں ہوگا ،یعنی لگانے سے جسم ناپاک نہیں ہوگا۔

بندہ محمود اشرف غفراللہ لہ                                                                                                                                                                        13 صفر  1442                                                        جامعہ دارالعلوم کراچی

بندہ محمد  یعقوب غفراللہ لہ                                                                                                                                                                        13 صفر  1442                                                        جامعہ دارالعلوم کراچی

 پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پر کلک کریں:

https://bit.ly/3cYZhdZ

اپنا تبصرہ بھیجیں