چہرے کا پردہ

۱…پردے کا حکم بلاشبہ ایک دینی اور شرعی امر ہے، لیکن پردے کا حکم خود شریعت کا مقصود نہیں، بلکہ ایک مہلک اور خطرناک فتنے یعنی بے حیائی عریانی، سیاہ کاری اور فحاشی کے سدباب اور اس کی روک تھام کے لئے پردے کا حکم دیا گیا ہے، یہ فتنہ انسانیت اور انسانی سوسائٹی کے لئے سم قاتل اور اقوام کی بربادی کا پیش خیمہ ہے، اس لئے شریعت مطہرہ نے بے حیائی اور فحاشی کے تمام ذرائع سے اسلامی معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے پردے کا حکم دیا۔

اسلام نے حجاب فطری کا ایک ایسا حیا آموز اور خوش انجام پروگرام پیش کیا ہے جس کی پیروی ایک طرف شریفانہ اخلاق اور خواتین کی آبرو کی کفیل ہے، اور دوسری طرف عام مادی فلاح وبہبود اور تحفظ انسانیت وقومیت کی ضمانت دار ہے، جس کے دائرے میں نہ زنا قدم رکھ سکتا ہے اور نہ ہی دواعی واسباب زنا کی چل سکتی ہے۔

۲…پردے کے اہتمام کے لئے قرآن کریم میں سات آیات اور ذخیرہ ٴ احادیث میں ستر سے زائد احادیث موجود ہیں جو عورتوں کے لئے پردے کے سلسلے میں رہنمائی کا کام دیتی ہیں ، چنانچہ ان آیات اور روایات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورت کے لئے اصل پردہ اس کے گھر کی چار دیواری ہے، کیونکہ عورت کی مثال ایک مخفی خزانے کی ہے جس کو صرف وہی شخص کام میں لانے کا حقدار ہے جو اس خزانے کا شرعاً مالک ہو، اس سے عفت اور پاکدامنی کی فضا قائم ہوتی ہے، لیکن اگر یہ مخفی دولت اپنے مقرر کردہ مقام سے بغیر ضرورت شرعی باہر نکل کر غیر محرموں کی نگاہوں میں آجائے، آزادانہ چلت پھرت اختیار کرے، اجنبیوں سے بے حجاب اختلاط اور میل جول رکھے اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول اور محو گفتگو ہو تو اس سے بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے، جس سے اسلامی معاشرے کی معاشرتی اور اخلاقی حدود پامال ہونا یقینی تھا، اس لئے شریعت مطہرہ میں سب سے پہلے عورت کو اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وقرن فی بیوتکن“ (احزاب:۳۳):…اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”واذا سألتموہن متاعاً فسئلوہن من وراء حجاب “ (الاحزاب:۵۳) :… اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر (کھڑے ہوکر وہاں سے) مانگا کرو۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ عورت کا اصل شرعی پردہ گھروں میں بیٹھنا ہے‘ تاکہ ان کا کوئی بھی حصہ مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہو اور پردے کا اہتمام اتنا شدید ہے کہ عورت کو اپنے زیورات کی آواز تک چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور غیر محرموں کو وہ آواز تک سنانے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (النور:۳۱) :…اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زورسے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔ 

حدیث شریف میں رسول اللہ اکا ارشاد گرامی منقول ہے: 

”المرأة عورة، فاذا خرجت استشرفہا الشیطان “ رواہ الترمذی۔“

(مشکوٰة کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبة وبیان العورات الفصل الثانی،ص:۲) 

ترجمہ:… عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے، چنانچہ جب کوئی عورت (اپنے پردے سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے۔ (مظاہر حق ۳/۲۶۸)

ایک صحابیہ حضرت ام حمید ساعدیہ رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ: یارسول اللہ! میری پسند خاطر یہ ہے کہ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کروں، تو آپ ا نے ارشاد فرمایا:

” قد علمت انک تحبین الصلوٰة معی وصلوٰتک فی بیتک خیر لک من صلوتک فی حجرتک، وصلوتک فی حجرتک خیر لک من صلوتک فی دارک، وصلوتک فی دارک خیر لک من صلوتک فی مسجد قومک، وصلوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلوتک فی مسجدی“۔ (رسالة تفصیل الخطاب فی تفسیر آیات الحجاب، جزء من احکام القرآن المسمی بدلائل القرآن علی مسائل النعمان ۵/۲۸۴ طبع انٹرنیشنل پریس میکلو روڈ کراچی)

ترجمہ:…”میں نے سمجھ لیا، پس بات (مختصر) یہ ہے کہ تیری نماز تیرے گھر کی کوٹھری میں افضل ہے گھر کے دالان سے، اور دالان میں تیری نماز افضل ہے عام صحن کی نماز سے اور عام صحن کی نماز افضل ہے، مسجد محلہ میں نماز پڑھنے سے، اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے میری مسجد میں نماز پڑھنے سے“۔ (شرعی پردہ از مولانا قاری محمد طیب)

غور کیجئے! کہ نماز جیسی اہم عبادت اور وہ بھی مسجد نبوی ا میں، سرکار دوعالم ا کی اقتداء میں، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایسی جماعت کے ہمراہ کہ جن کی عفت مآب زندگی امت محمدیہ کے لئے تحفظ عفت وعصمت کا اعلیٰ نمونہ اور مثال ہے، اس کے باوجود آپ اکا ان صحابیہ کو اپنے گھر ہی میں چھپ کر پڑھنے کو افضل قرار دینے سے یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ عورت کے لئے فطری ما حول اس کی چار دیواری ہے۔

انہی نصوص کو بنیاد بناکر امت مسلمہ کے فکر سلیم رکھنے والے دانشوروں اور داناؤں نے جنہیں دنیا فقہاء کرام کے نام سے جانتی ہے، یہ فتویٰ جاری کیا کہ عورت کا بلاضرورت شرعی گھر سے نکلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، علامہ آلوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں:

”وقد یحرم علیہن الخروج بل قد یکون کبیرة کخروجہن لزیارة القبور اذا عظمت مفسدتہ وخروجہن ولو الی المسجد وقد استعطرن وتزین اذا تحققت الفتنة واما اذا ظنت فہو حرام غیر کبیرة، وما یجوز من الخروج کالخروج للحج وزیارة الوالدین وعیادة المرضیٰ وتعزیة الاموات من الاقارب ونحو ذلک فانما یجوز بشروط مذکورة فی محلہا“۔ (روح المعانی ج:۸، جزء ۱۱ ص:۱۸۸دار الکتب العلمیہ)

۳…اسلام ایک متشدد مذہب نہیں جس میں حکم کا صرف ایک ہی پہلو ہو کہ عورتیں گھروں ہی میں بیٹھی رہیں، بلکہ اسلام نے ان کی شرعی ضرورتوں کی بناء پر ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، البتہ اس فتنہ بے حیائی کے پیش نظر عورت پر گھر سے باہر نکلتے وقت کچھ پابند یاں لگائی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”یا ایہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیہن من جلابیبہن“۔ (الاحزاب:۵۹)

ترجمہ:…اے پیغمبر! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچی کرلیا کریں اپنے (چہرے) کے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں“۔

اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس پردے کی کیفیت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عورت جب کسی ضرورت شرعی کی وجہ سے باہر نکلے تو ایک بڑی چادر کے ذریعے سر اور چہرہ ڈھانپ کر نکلے اور صرف راستہ دیکھنے کے لئے ایک آنکھ کھلی رہے“۔

”امر الله نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطیہن وجوہہن من فوق رؤسہن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة“۔ (تفسیر ابن کثیر ۵/۲۳۱)

اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ولاتبرجن تبرج الجاہلیة الالیٰ“ (الاحزاب:۳۳) … اور قدیم زمانہ ٴ جہالت کے دستور کے مطابق مت پھرو، (جس میں بے پردگی رائج تھی، گوبلافحش ہی کیوں نہ ہو) 

تبرج کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے محاسن مردوں کے سامنے ظاہر کرے کہ جس سے مردوں میں اس کی طرف میلان پیدا ہوجائے، تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنی زیب وزینت کو اسلام آنے کے بعداس طرح ظاہر نہ کرتی پھرو جس طرح اسلام سے پہلے کفر کے زمانے میں عورتیں کرتی تھیں۔ اسی طرح عورت نے اگر بوجہ امر شرعی باہر نکلنا ہی ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کی پابندی لازمی ہے۔

۱…زیب وزینت اور خوشبو وغیرہ کا استعمال نہ کرے۔۲…بجنے والا زیور استعمال نہ کرے، ۳…اس کی چال ناز ونخرے والی نہ ہو، ۴…راستے کے درمیان میں چلنے سے بچتے ہوئے ایک طرف کو ہوکر چلے، ۵…یہ باہر نکلنا سرپرست کی اجازت سے ہو، ۶…راستے میں اس کی نگاہیں آزادانہ نہ ہوں بلکہ نگاہ نیچے کی ہوئی ہو، ۷…چلتے ہوئے مردوں کی بھیڑ میں اور رش میں نہ گھسے۔

ان تفصیلات سے بخوبی معلوم ہوا کہ اسلام کا مقصود اصلی صرف عورت کی عفت وپاکدامنی نہیں، بلکہ اسلامی سوسائٹی اور اس کے افراد کے درمیان بے حیائی، فحاشی وعریانی کی روک تھام مقصود ہے، جس کا سبب اصلی عورت کی بے حجابی اور بے پردگی ہے،اس لئے اسلام نے پردے کا اصل حکم عورت کو دے کر اس بات کا پابند بنایا کہ وہ گھر میں چھپی رہے اور بلاضرورت شرعی گھر سے نہ نکلے۔

۴…اب رہ گئی یہ بات کہ چہرے کا پردہ اسلام میں ہے یا نہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ایک ہے بدن کافی نفسہ چھپانا جس کو ستر عورت کہتے ہیں اور دوسری چیز ہے اجنبی اور غیر محرموں سے پردہ۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ دو مختلف چیزیں ہیں اور ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے:

۱…ستر عورت یعنی بدن کا چھپانا ان بنیادی فطری امور سے ہے جس کے فرض ہونے پر تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں متفق رہی ہیں، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے سے پہلے بھی اس کا وجود تھا، چنانچہ جب حضرت آدم وحواء علیہما السلام سے ممنوعہ درخت سے پھل کھالینے کی وجہ سے جنتی لباس اترنے لگا تو انہوں نے اپنا بدن ظاہر ہونا گوارا نہ کیا، بلکہ فوراً اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے درختوں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے، تاکہ ستر عورت کا انتظام ہوجائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”طفقا یخصفان علیہما من ورق الجنة“ (طہ:۱۲۱) … اور (اپنا بدن ڈھانکنے کو) دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے“۔

شاہ ولی اللہ ”حجة الله البالغة“ میں لکھتے ہیں کہ ستر عورت یعنی بدن چھپانے کا اہتمام کرنا اتفاقی امور میں سے ہے:

”فاتفقوا مثلاً علی ازالة نتن الموتیٰ وستر سواٰتہم ثم اختلفوا فی الصور“

(جز ۱/۱۱۴ باب اتفاق الناس علی اصول الارتفاقات)

جبکہ اجنبی اور غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم ہجرت کے پانچویں سال نازل ہوا ۔

۲…ستر عورت فی نفسہ فرض ہے چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، اسی لئے فقہاء کرام نے تنہائی ویکجائی میں بھی ننگے بدن نماز پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے، کیونکہ ستر عورت کی شرط نہیں پائی گئی، لیکن حجاب اور پردہ اس وقت فرض ہوجاتا ہے جب اجنبی لوگوں کی نگاہوں میں آنے کا اندیشہ ہو۔

۳…ستر عورت کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے جبکہ حجاب اور پردے کا حکم عورتوں کے ساتھ خاص ہے۔

ستر عورت اور پردے کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد اب جاننا چاہئے کہ عورت کے لئے اپنے تمام بدن کا فی نفسہ چھپانا ضروری اور فرض ہے، اس لئے اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی،ستر عورت کے اس حکم میں عورت کا چہرہ اور ہاتھ بھی شامل ہیں، لیکن امور خانہ داری انجام دیتے وقت چہرہ اور ہاتھ چھپانے میں عورت کے لئے تنگی اور مشقت تھی، اس لئے شریعت میں ان کو ستر عورت کے فرض شدہ حکم سے مشتثنی قرار دے کر ہر وقت چہرہ چھپائے رکھنے کو لازم نہیں رکھا، البتہ اس کے اجنبی مردوں کے سامنے بھی کھلا رکھنے سے بے حیائی پھیلنے کے پیش نظر اس کے لئے پردے کا حکم دیا۔

ستر عورت اور حجاب (پردے) کے درمیان یہ فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ شبہ لگ جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں، بلکہ عورت چہرہ کھولے اجنبی مردوں کے سامنے آجاسکتی ہے، جیسے کہ سوال نمبر (۴) میں مذکور ہے اور اس کے لئے بنیادی آیت جو پیش کی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

”ولایبدین زینتہن الا ما ظہر منہا“ (النور:۳۱) :…اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس (مواقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا (ہی) رہتا ہے (جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے“۔

لیکن اس آیت سے چہرے کے اجنبی مردوں سے پردہ نہ ہونے پراستدلال کرنا کئی وجوہ سے درست نہیں:

۱…”الاماظہر“ سے چہرہ ہی مراد لینا اور اس کی تفسیر چہرہ سے کرنا واضح اور متعین نہیں، کیونکہ اس کی تفسیر عہد صحابہ ہی میں مختلف رہی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ”زینة“ (سر جس کے چھپانے کا عورتوں کو حکم دیا گیا ہے) کی تفسیر عورت کی زیب وزینت کی اشیاء مثلاً: لباس ، زیورات وغیرہ سے کی ہے، یعنی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت اتنی شدت کے ساتھ پردے کی پابند ہو کہ اس کی زیب وزینت کی اشیاء بھی اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہ ہوں، البتہ اس زینت کو چھپانے کے لئے جو بڑی چادر یا برقع استعمال کیا جاتا ہے اگر وہ اجنبی مردوں کی نگاہوں میں آجائے، اسی طرح اگر اس چادر یا برقع کے نیچے سے لباس کے کنارے ظاہر ہوں تو اس میں مضائقہ نہیں، کیونکہ ان کو چھپانے میں بھی حرج اور تنگی ہے۔ البتہ حضرت عبد اللہ بن عباس ا سکی تفسیر چہرہ سے کرتے ہیں ،لیکن اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام میں اجنبی مردوں سے چہرے کا پردہ نہیں، بلکہ صرف ستر عورت سے چہرے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، حرج اور تنگی کی بناء پر۔ اور اجنبی مردوں سے پردے کے حکم میں عورت کا باقی بدن اور چہرہ برابر ہیں کہ ان سب کو چھپانا ضروری ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے:

”وقال ابن مسعود کالرداء والثیاب یعنی علی ما کان یتعاطاہ نساء العرب من المقنعة التی تجلل ثیابہا، ومایبدو من اسافل الثیاب فلاحرج علیہا فیہ، لان ہذا لایمکن اخفاؤہ… عن عبد اللہ قال فی قولہ: ”ولایبدین زینتہن“ الزینة القرط والدملوج والخلخال والقلادة… قال: الزینة زینتان، فزینة لایراہا الا الزوج، الخاتم والسوار، وزینة یراہا الاجانب وہی الظاہر من الثیاب “ (ابن کثیر ۴/۵۳۸)

تفسیر احمدی میں ہے:

”ولذلک تری صاحب البیضاوی لم یجوز النظر الی الوجہ والکف مع انہ تیقن بجواز اظہار الوجہ والکف لالانہما لیست بعورة، والاظہر ان ہذا فی الصلوٰة لا فی النظر، فان کل بدن الحرة عورة لایحل لغیر الزوج والمحرم النظر الی شیئ منہاالا لضرورة کالمعالجة وتحمل الشہادة وہذا کلامہ ولایخفی حسنہ انتہی“۔ (ص:۵۶۲)

ان تمام حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ”الاماظہر“ سے اول تو چہرہ مراد ہے ہی نہیں اور اگر اس سے چہرہ ظاہر کرنے کو مراد لیا جائے تب بھی اس کا تعلق صرف عورت کی ذات کی حد تک ہے اور بغیر ضرورت شرعی اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ ظاہر کرنا ناجائز ہے۔

۲…عورت کو چہرہ کھولنے کی اجازت اس تنگی اور حرج کو دور کرنے کے لئے تھی جو چہرہ ڈھانپ کر گھریلو کام کاج کرنے میں لازم آرہا تھا، جبکہ اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ چھپانے میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہیں کہ عورت کو ان کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت دی جائے۔

۳…اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

”ولایضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن“ (النور:۳۱)

ترجمہ…اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے“۔

زیورات سے نکلنے والی آواز کو بھی غیر محرموں کو نہ سنانے سے بآسانی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ غیر محرموں کے سامنے چہرہ کھولنے کی ممانعت کتنی شدید ہوگی۔ احکام القرآن میں امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:

”قد عقل من معنی اللفظ النہی عن ابداء الزینة واظہارہا لورود النص فی النہی عن اسماع صوتہا، اذ کان اظہار الزینة اولیٰ بالنہی مما یعلم بہ الزینة، فاذا لم یجز باخفی الوجہین لم یجز باظہرہما“۔ (۳/۴۶۵)

۴…عورت کا چہرہ تمام محاسن کا مجموعہ اور تمام زینتوں کا منبع ہے، اگر باقی بدن مستور ہو اور صرف چہرہ ہی کھلا ہوا ہو تو اسلامی سوسائٹی میں بے حیائی اور فحاشی پھیلنے سے کیا چیز مانع ہوسکتی ہے، خصوصاً اس موجودہ دور میں اس فتنے سے حفاظت کس طرح ممکن ہے جبکہ نیکی اور بدی کے درمیان تمیز اٹھ چکی ہے، دل پلٹ چکے ہیں، بے حیائی قابل فخر ہے اور بے پردگی قابل ستائش۔

اور اگر بالفرض عورت کا چہرہ اس کی طرف سے پردے کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے کھلا ہوا ہو اور اس کی طرف سے غفلت پائی جارہی ہو تب بھی اسلام نے اس کی طرف دیکھنے کی مردوں کو اجازت نہیں دی، بلکہ ان کو نظریں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے اور فقہاء کرام نے اجبنی عورتوں کی طرف دیکھنے کو حرام قرار دیا ہے، اگرچہ بے حیائی اور فحاشی کا شک بھی نہ ہو، چنانچہ اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم“۔ (النور:۳۰)

ترجمہ:…آپ مسلمان مردوں سے کہدیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اپنے رسالے تفصیل الخطاب میں لکھتے ہیں:

”والحاصل ان النظر الی وجہ الاجنبیة وکفیہا حرام عند المالکیة والشافعیة والحنابلة، سواء خیفت الفتنة اولا… ومشائخ الحنفیة کالجصاص والقہستانی لما رأوا ان ہذہ المواضع الشاذة ایضاً کادت تنعدم فی عصرہم فساد الزمان، حکموا بمنع الشابة عن کشف وجہہا بین الاجانب کما مر من الدر المختار ورد المحتار او من الجصاص فی احکام القرآن“۔ (احکام القرآن المسمی بدلائل القرآن ۵/۲۹۹)

الغرض شریعت مطہرہ میں جس طرح عورت کے لئے باقی بدن چھپانے کا حکم ہے اسی طرح اس کے لئے اجنبی اور غیر محرموں سے چہرے کو چھپانے کا بھی حکم ہے اور ان کے سامنے بلاضرورت شرعی چہرہ کھولنا جائز نہیں۔ امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن (۳/۵۴۶)میں لکھتے ہیں:

”یدنین علیہن من جلابیبہن“ … قال ابوبکر فی ہذہ الایة دلالة علی ان المرأة الشابة مامورة بستر وجہہا عن الاجنبین واظہار الستر والعفاف عند الخروج“۔

اب مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں سوال میں ذکر کردہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں:

۱… قرآن کریم کی آیت جو غض بصر یعنی نگاہیں نیچی رکھنے سے متعلق ہے اس سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں کہ عورت کے لئے چہرے کا پردہ نہیں، کیونکہ آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی طرف دیکھنے کو حرام قرار دیا ہے ان کی طرف اگر اچانک بلاقصد نظر پڑ جائے تو فوراً نگاہیں جھکادی جائیں، اس سے اس بات کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا کہ عورت بے محابا اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ کھول کر گھومتی پھرے، کیونکہ چہرے کا پردہ جدا اور مستقل حکم ہے، جس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے اور غض بصر جدا حکم ہے، غض بصر کے حکم سے چہرے کا پردہ نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔

۲…حضرت ام شریک کی جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان کے پاس صحابہ کرام کا مجمع لگارہتا تھا تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہ آنے والے صحابہ کرام اجنبی نہ تھے اور نہ ہی ان کے بارے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اجنبیہ کے ساتھ خلوت اور تنہائی رکھیں گے جبکہ وہ رسول اللہ ا کا یہ ارشاد گرامی بھی سن چکے ہوں:

”ایاکم والدخول علی النساء“ ۔ (مشکوٰة: ص:۲۶۸)

ترجمہ:…(اجنبی) عورتوں کے نزدیک جانے سے اجتناب کرو۔

اور آپ اکا یہ ارشاد بھی ان کے سامنے ہو:

”لایخلون رجل بامرأة الا کان ثالثہما الشیطان رواہ الترمذی۔ (ص:۲۶۹)

ترجمہ:…جب بھی کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں یکجا ہوتا ہے تو وہاں ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

بلکہ ان کے پاس آنے والے صحابہ کرام ان کے اپنے محرم رشتہ دار اور ان کی اولاد تھی، چنانچہ ملاعلی قاری مرقاة میں لکھا ہے:

”ای من اقاربہا واولادہا فلایصلح بیتہا للمعتدة“ (۶/۴۸۶)

لہذا اس حدیث سے محرم مردوں کے عورتوں کے پاس آنے جانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔

۳…شریعت مطہرہ میں پردے کا حکم عورت کو دیا گیا ہے، مرد کو نہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے اجنبی مرد کو دیکھنے کا حکم اتنا شدید نہیں جتنا مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنے کا حکم شدید ہے لیکن عورت کے لئے اجنبی مرد کو دیکھنا صرف اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ یہ دیکھنا بنظر شہوت نہ ہو، البتہ اس کے حق میں بہتر اور فضیلت کی بات یہی ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھے، علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:

”نعم غضہا بصرہا من الاجانب اصلا اولیٰ بہا واحسن“ (۹/۳۳۵)

لہذا عورتوں کے لئے ایسا نقاب تجویز کرنا صحیح ہے کہ جس سے ان کی اجنبی مردوں پر نظر نہ پڑ سکے تاکہ دلوں کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ بے حیائی اور فحاشی کی آلودگیوں سے پاک وصاف رہے۔

۴…ستر عورت اور پردے کے درمیان فرق ماقبل میں گذر چکا ہے، چنانچہ فی نفسہ چہرہ اگرچہ ستر عورت میں داخل نہیں، لیکن اجنبی مردوں سے اس کا پردہ بہرحال ضروری اور لازمی ہے۔

۵…قرآن کریم کی اس آیت ”ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن“ میں ”وجوہہن“ کے بجائے ”جیوبہن“ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ جاہلیت کی رسم بدکو مٹانا مقصود تھا ،کیونکہ اس زمانے میں عورتیں جب چادر وغیرہ اوڑھتی تھیں تو صرف سر پر اوڑھنی اوڑھ کر اس کے دونوں پلو کندھوں پر لٹکالیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ اور گردن کھلے رہ کر بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بنتے تھے، اس کی روک تھام کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ سر پر اوڑھنی اوڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو سینے پر بھی گھمالیں، تاکہ سینہ اور گردن وغیرہ بھی مستور ہوجائیں۔ (تفسیر قرطبی ۱۲/۲۰۹)

اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھے او رنہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں چہرے کا پردہ نہیں۔

۶… اس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔

۷… اس آیت ”ولایضربن…الخ“ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی زینت والی اشیاء مثلاً زیوارات وغیرہ کی آواز جھنکار کو بھی غیر محرموں کو سنانے سے منع کیا ہے، چاہے وہ درون خانہ ہوں یا بیرون خانہ ، لہذا اس حکم کو صرف بیرون خانہ زندگی کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں۔

۸…یہ بات صحیح ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ،لیکن آیت ”فلاتخضعن بالقول“ کو صرف موجب فتنہ آواز کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں، بلکہ اس میں اجنبی مردوں سے بلاضرورت شرعی گفتگو کرنا اور ہنسی مذاق کی بھی ممانعت داخل ہے ۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

”والدلالة علی ان الاحسن بالمرأة ان لاترفع صوتہا بحیث یسمعہا الرجال،،۔ (۳/۵۲۹ طبع قدیمی)

اس آیت ”ولو اعجبک حسنہن“ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت کے لئے چہرے کا پردہ نہیں، کیونکہ آیت میں یہ ہے کہ اگرچہ عورتوں کا حسن اچھا معلوم ہو۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ امر غیر اختیاری ہے لیکن اس کے لئے مذموم طریقے پر شرعی اجازت کے بغیر قصدو ارادے سے اجنبی عورتوں کو بنظر شہوت دیکھنا کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا اور صرف اسی آیت کو لے کر چہرے کا پردہ نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں، دیگر ان تمام آیات وروایات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ جن میں حجاب اور پردے کا حکم دیا گیا ہے، صرف اس آیت سے اپنی خواہش اور پسند کا مطلب نکال لینا اور بقیہ تمام کی تمام صریح نصوص سے آنکھیں بند کرلینا الحاد اور بے دینی کا راستہ ہے۔

۹،۱۰،۱۱،…یہ آیت ہی پردے کی اصل بنیاد ہے، اسی میں عورتوں کو گھروں میں بیٹھے رہنے حکم دیاگیا ہے، کیونکہ عورت کا تمام بدن قابل پردہ ہے، البتہ اگر گھریلو اثاثوں اور سازوسامان سے متعلق کوئی اجنبی ان سے سوال کرے تو حکم یہ ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرے، تاکہ ان عورتوں کا کوئی بھی حصہ ان کے سامنے ظاہر نہ ہو اور یہی اسلام کا مطلوب اصلی ہے، اس میں چہرے کا پردہ بھی شامل ہے، اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں کہ اس آیت کا تعلق نامحرموں سے ہے، عورتوں سے نہیں، لہذا وہ اپنا چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے کھلا رکھیں، یہ محض رائے زنی اور قرآنی آیات میں من چاہی تاویلات کرنا ہے۔

۱۲…عورت کا اصل مقام گھروں میں بیٹھنا ہے، اس کی خلقت ایسی نہیں کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار زندگی میں مردوں کے ساتھ تعاون کریں، جیساکہ سابق میں آیات وروایات سے اس پر حوالے پیش کئے جاچکے ہیں۔ البتہ ضرورت شرعی کے پیش نظر اسلام نے اگرچہ عورت کو گھرسے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہی پردے کی مکمل پاسداری کے ساتھ جس کی تفصیل گذرچکی ہے، لہذا اگر دیندار لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکے عطاء کردہ احکامات پر عمل کرتے ہیں تو یہ قابل عیب نہیں، البتہ اس کو قابل عیب بتانے والے خود اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

۱۳…اس آیت ”فامسکوہن فی البیوت“ کا تعلق عام زندگی سے نہیں، بلکہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ اگر عورت سے کسی فاحشہ یعنی زنا کا صدور ہوجائے تو چونکہ اس بارے میں کوڑوں اور رجم کے احکامات ابھی تک نازل نہیں ہوئے تھے، اس لئے اس عورت کی سزا یہ مقرر کی گئی کہ اس کو سزا گھر میں قیدی بناکر رکھو، یہاں تک کہ اس کے لئے دوسرا حکم نازل ہوجائے، بعد میں جب سورة النور میں زنا کرنے پر حد جاری کرنے کا حکم آگیا تو گھر میں عورت کو قیدی بنانے کی سزا ختم کردی گئی۔ اس سے ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت اگر باکردار ہو تو اس کو باہر گھومنے پھرنے کی مکمل آازادی ہے۔ جبکہ عورتوں کے لئے دوسری صریح آیات اور احادیث موجود ہیں جن میں ان کو گھروں میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو بلاضرورت شرعی ان کے گھر سے باہر نکلنے پر صراحةً ممانعت پردلالت کرتی ہیں۔

پس یہ ملحداور بے دین لوگوں کا شعار رہا ہے کہ وہ قرآن کریم اور احادیث کے واضح اور صریح احکامات کو چھوڑ کر متشابہات اور محتملات والی آیات وروایات کو لے کر اپنا من چاہا مطلب نکالتے ہیں اور الحاد اور بے دینی کی راہ ہموار کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے متعلق ہی باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

”ان الذین یلحدون فی آیاتنا لایخفون علینا“ ۔ (حم سجدہ:۴۰)

ترجمہ:… جو لوگ ٹیڑھے چلتے ہیں ہماری باتوں میں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں یعنی سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شبہات پیدا کرکے ٹیڑھے بناتے ہیں یا خوامخواہ توڑ موڑ کر غلط مطلب لیتے ہیں۔ (تفسیر عثمانی)

۱۴…عورت کا بوجہ شرعی مکمل پردے کے ساتھ چہرہ چھپاکر گھر سے باہر نکلنا ہی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور تمام آیات اور روایات پر عمل اور ان کی بجاآوری ہے، جس سے پردے سے متعلق اسلامی احکامات اپنی اصل شکل وصورت میں زندہ رہتے ہیں اور حیاء، عفت اور عصمت کے تحفظ کی جو ذمہ داری اسلام نے لی ہے وہ حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آتی ہے۔

۱۵․․․․بخلاف چہرہ کھول کر اجنبی مردوں کو دعوت نظارہ دینے سے اسلام کی حیاء سے متعلق تعلیم اور فلسفے پر زد پڑتی ہے اور اسلام کی روح متاثر ہوتی ہے، یہ اصل اسلام نہیں، بلکہ جاہلیت اولیٰ کی دوبارہ آبیاری ہے، جیساکہ مشاہدے سے ہرعاقل وبالغ اور فکر سلیم کا حامل انسان بخوبی جان سکتا ہے۔

الغرض جس شخص کے یہ نظریات ذکر کئے گئے ہیں، بالکل غلط اور تعلیمات اسلام کے خلاف ہیں، ان نظریات کی پر چار کرنے والا شخص اگر جان بوجھ کر تمام آیات قرآنیہ اور احادیث رسول ا سے صرف نظر کرکے، فقہا ،اکابر اور سلف صالحین کی تشریحات کے خلاف اپنی من چاہی تاویلات اور ترشیحات کرتا ہے تو ایسا شخص سراسر گمراہ ہے ،جس سے تعلیم وتعلم کا سلسلہ قائم رکھنے سے نہ صرف فکری ارتداد کا خدشہ ہے، بلکہ اسلام کی ٹھوس تعلیمات میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے نظریاتی سرحدوں کے تباہ ہونے کا بھی خدشہ ہے، لہذا ایسے شخص سے مکمل اجتناب ضروری ہے، تاکہ دین اسلام کی تعلیمات پر درست طریقے سے عمل کیا جاسکے۔

سوال یہ ہے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین پردہ کی مکلف کیوں نہیں؟ یا یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ کیوں خاص ہے؟ اگر دوسری مسلمان خواتین اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو کیوں؟ ان کو کب؟ اور کس آیت یا حدیث کی رو سے مستثنیٰ قرار دیا گیا؟ کیا ہم  یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ وہ ایسی کسی قرآنی آیت، حدیث، فقہی جزئیہ، ائمہ اربعہ میں سے کس امام کی تصریح، مسلمہ ائمہ تفسیر، حدیث، اور اہلِ تحقیق میں سے ایسے کسی کے قول، فعل یاعمل کی نشاندہی فرماسکتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہوکہ حجاب اور پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا؟ کیا حضرات صحابہ کرام نے بھی اس سے یہی سمجھا تھا؟ کیا حضرات صحابیات بھی اس حکم سے مستثنیٰ تھیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا اس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ کون کون سے صحابہ کرام اس کے قائل تھے؟ اور کن کن صحابیات نے اس حکم الٰہی سے …نعوذباللہ… بغاوت کی تھی؟ تُف ہے اس عقل و دانش پر اور لعنت ہے اس جہالت و سفاہت پر کہ اپنی خواہش پرستی اور انکار دین کو قرآن و سنت اور دین و شریعت کے سرمنڈھ دیا جائے اور نہایت ڈھٹائی، بے حیائی، بے باکی اور بے شرمی سے اسے اچھا لا جائے۔ افسوس !صد افسوس !کہ موصوف نے ایسی کسی آیت، حدیث، تفسیر، تحقیق، کسی صحابی، تابعی یا ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تصریح کی نشاندہی نہیں فرمائی، جس سے ہم جیسے کوتاہ علموں کی راہ نمائی ہوتی، اگر وہ اس قسم کی کوئی نشاندہی فرمادیتے تو ہمیں ان کے دلائل و براہین پر غوروفکر میں سہولت ہوجاتی، نیز ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ انہیں کہاں سے ٹھوکر لگی ہے؟ اور وہ کس بناء پر غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں؟ یا وہ کس وجہ سے سیدھے سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ تاہم ہمارا حساس و وجدان ہے کہ وہ کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں، بلکہ وہ دوسروں کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے پر مامور ہیں۔ کیونکہ وہ جاہل و اَن پڑھ نہیں، ”لکھے پڑھے اسکالر “اور ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے ملحد و مرتد کے شاگرد و خوشہ چیں، بلکہ ان کے جانشین اور ان کی فکر و فلسفہ کے داعی و مناد ہیں۔ نظر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آیت حجاب میں… جس کا انہوں نے اپنے انٹرویو میں حوالہ بھی دیا ہے… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے متعلق خطاب ہے اور صحابہ کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، اس لئے غالباً موصوف نے اس سے یہی سمجھا کہ اس آیت میں مذکور احکام و آداب بھی حضرات ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں، لیجئے! آیت حجاب پڑھیئے اور موصوف کی فکر رسا کی داد دیجئے! ملاحظہ ہو آیتِ حجاب:

”یا یہا الذین آمنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الٰی طعام غیر ناظرین اناہ، ولکن اذا دعیتم فادخلوا، فاذا طعمتم فانتشروا ولامستأنسین لحدیث، ان ذٰلکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم واللّٰہ لایستحی من الحق واذا سألتموہن متاعاً فسئلوہن من ورآء حجاب، ذٰلکم اطہر لقلوبکم وقلوبہن، وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللّٰہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً، ان ذٰلکم کان عنداللّٰہ عظیما۔‘ (احزاب:۵۳)

ترجمہ:… ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو، مگر جس وقت تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جاوے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، لیکن جب تم کو بلایا جاوے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگاکر مت بیٹھے رہا کرو ، اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے، سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا، اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو، یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو کلفت پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ تم آپ کے بعد آپ کی بیبیوں سے کبھی بھی نکاح کرو، یہ خدا کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔“

یہ طے شدہ امر ہے، بلکہ تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم سب سے پہلے سورئہ احزاب کی مندرجہ بالا آیت میں نازل ہوا تھا، اسی لئے اس آیت کو آیت حجاب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تاہم اس آیت میں امت مسلمہ کو حجاب کے علاوہ چند دوسرے احکام و آداب کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے مثلاً: دعوت طعام کے آداب، کسی کے گھر میں جانے کے آداب، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم، ازواج مطہرات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنے کا حکم وغیرہ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے، اور اس میں ازواج مطہرات کے پردے سے متعلق حکم بھی ہے، لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے، بلکہ یہ حکم عام ہے اور اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سورئہ احزاب کی مندرجہ ذیل آیات میں خطاب ازواج مطہرات کو ہے، مگر ہر ذی فہم جانتا ہے کہ یہ حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لئے عام ہے، چنانچہ سورئہ احزاب کی وہ آیت ملاحظہ ہو:

”یانسآء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولاً معروفا۔ وقرن فی بیوتکن ولا تبرّجن تبرّج الجاہلیة الاولی واقمن الصلٰوة وآتین الزکوة واطعن اللّٰہ ورسولہ، انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔“ (احزاب:۳۲/۳۳)

ترجمہ:…”اے نبی کی بیبیو!تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو پاک صاف رکھے۔“

دیکھئے! یہاں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے ، اگر بالفرض اس آیت کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیا جائے، تو کیا کہا جائے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح ننگ دھڑنگ پھرسکتی ہیں؟ کیا جناب خالد مسعود صاحب اس کے قائل ہیں کہ اس آیت میں نماز قائم کرنے، زکوٰة دینے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم بھی صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو کیا امت مسلمہ کی دوسری خواتین نماز، زکوٰة کی ادائیگی اور اللہ، رسول کی اطاعت سے مستثنیٰ ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے، تو بتلایا جائے کہ ایک آیت میں ہی ایک حکم عام تو دوسرا خاص کیوں؟

ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین!

صرف یہی نہیں، بلکہ اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ خطاب خاص ہوتا ہے لیکن اس کا حکم عام ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

”یایہا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن واحصوا العدة، واتقوا اللّٰہ ربکم، لاتخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة، وتلک حدود اللّٰہ، ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ، لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امراً۔“ (الطلاق: ۱)

ترجمہ:… ”اے پیغمبر جب تم …اپنی… عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کو …زمانہ… عدت …یعنی… حیض سے پہلے …یعنی طہر میں… طلاق دو اور تم عدت کو یاد رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، ان عورتوں کو ان کے …رہنے کے… گھروں سے مت نکالو… کیونکہ سکنٰی مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے… اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں مگر ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں تو اور بات ہے اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا … مثلاً اس عورت کو گھر سے نکال دیا… اس نے اپنے اوپر ظلم کیا تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ بعد اس …طلاق دینے…کے کوئی نئی بات …تیرے دل میں… پیدا کردے۔“

کیا خیال ہے خالد مسعود صاحب یا ان کے ہمنوا یہاں حیض کے بجائے طہر میں طلاق دینے، اور عدت کی مدت میں گھر سے نہ نکالنے یا عدت کے حساب رکھنے کو بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں؟ کیا وہ نعوذباللہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری مسلمان خواتین کی عدت اور عدت میں سکنٰی کے قائل نہیں ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کس بنیاد پر؟ سوال یہ ہے کہ جس طرح اس آیت کے مخاطب اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات ہیں مگر اس کا حکم عام ہے، ٹھیک اسی طرح آیت حجاب میں بھی خطاب اگرچہ ازواج مطہرات کو ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور تمام مسلمان خواتین اس کی مکلف ہیں۔ اس کے علاوہ اگر بالفرض قرآن کریم کے احکام صرف اس کے مخاطبین اولین تک محدود ہوتے، تو نعوذباللہ! آج امت مسلمہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کے نور ،روشنی اور برکات سے محروم نہ ہوچکی ہوتی؟ کیونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول تو حضرات صحابہ کرام تھے، جب وہ نہیں رہے تو ان کی طرف متوجہ ہونے والا خطاب کیونکر باقی ہوتا؟ چلئے اس کو بھی چھوڑیئے ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس آیت اور اس کے حکم کا کیا محمل ارشاد فرمائیں گے؟ جس میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ مومن خواتین کو بھی مخاطب کرتے ہوئے گھر سے باہر جاتے وقت پردہ کا حکم دیا گیا ہے، ملاحظہ ہو:

”یایھا النبی قل لا زواجک وبنٰتک ونساء المؤمنین یدینن علیہن من جلابیبہن، ذالک ادنیٰ ان یعرفن فلایؤذین وکان اللّٰہ غفوراً رحیما۔“(احزاب: ۵۹)

ترجمہ:… ”اے پیغمبر اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ نیچی کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں، اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“

حافظ ابن کثیر تفسیر ”ابن کثیر“ میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”قال علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس امر اللّٰہ نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة ان یغطین وجوہہن من فوق رؤسہن بالجلابیب ویبدین عیناً واحدة۔“
”وقال محمد بن سیرین سألت عبیدة السلمانی عن قول اللّٰہ تعالیٰ یدنین علیہن من جلابیبہن، فغطی وجہہ ورأسہ وابرزعینہ الیسریٰ“ (ابن کثیر ص:۲۳۱، ج:۵، مکتبہ رشیدہ کوئٹہ)

ترجمہ:… علی بن ابی طلحہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہروں کو سروں کی جانب سے پردہ سے ڈھانپ لیا کریں اور… راستہ دیکھنے کے لئے … صرف ایک آنکھ کھلی رکھا کریں۔ حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سلمانی سے اللہ کے ارشاد:”یدنین علیہن من جلابیبہن“ کے معنی و مفہوم کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سرچھپا کر، صرف بائیں آنکھ ظاہر کرکے… اس کی عملی وضاحت فرمائی۔“

صرف حافظ ابن کثیر ہی نہیں، بلکہ تمام مفسرین نے اس مقام پر اس سے ملتے جلتے الفاظ میں اس کی تفسیر کی ہے۔ ملاحظہ ہو: علامہ آلوسی کی روح المعانی، قاضی شوکانی کی فتح القدیر، جصاص کی احکام القرآن، علامہ قرطبی کی تفسیر الجامع الاحکام القرآن، علامہ قرطبی ہی کی احکام القرآن، تفسیر ابن جریر، تفسیر بحر محیط، تفسیر ابوالسعود، تفسیر زاد المیسر،تفسیر در منثور، تفسیر روح البیان، تفسیر مظہری، تفسیر معالم التنزیل ،تفسیر جمل اور تفسیر بیضاوی وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ مغربی اساتذہ سے پڑھتے ہیں، یا ان کا مغرب میں برین واش کیا جاتا ہے، وہ اسی زاویہ نگاہ سے اسلام، قرآن اور اسلامی احکام کو دیکھتے،پڑھتے اور سمجھتے ہیں، چونکہ ان کی فکر، سوچ، دل، دماغ، کان اور آنکھ میں بدگمانی اور تشکیک کا میل کچیل بھردیا جاتا ہے، اس لئے ان کو قرآن، سنت، اجماع امت، صحابہ کرام، تابعین، امت مسلمہ کی تحقیقات و تعامل اور مسلمات دینیہ میں اسی شک و شبہ کا میل کچیل نظر آتا ہے، اس لئے وہ اپنی فکر، سوچ، دل، دماغ، زبان، ہاتھ، کان اور آنکھ سے ہر وہ بات سوچتے، بولتے، لکھتے اور دیکھتے ہیں جو ان کے مستشرق اساتذہ اور ملحد مربی بولتے اور لکھتے ہیں، ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام ، اوامر و نواہی میں اگرچہ خطاب مردوں کو ہوتا ہے مگر خواتین بھی اس میں شامل ہوتی ہیں، اور جہاں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں عام مسلمان خواتین بھی اس کی مخاطب ہوتی ہیں۔ مثلاً پورے قرآن میں خواتین کے حج کرنے سے متعلق کہیں کوئی حکم نہیں ہے، کیا کہا جائے کہ خواتین پر حج فرض نہیں ہے؟اسی طرح تیمم کا حکم دیتے ہوئے عورتوں کے بجائے صرف مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے، تو کیا خواتین اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتیں؟ اسی طرح بے شمار احکام میں مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے، تو کیا خواتین ان احکام سے مستثنیٰ ہوں گی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ناس ہو منکرین حدیث کاکہ انہوں نے ہمیشہ قرآن کریم کو، حدیث و سنت اور فقہائے امت کی تحقیقات کے تناظر میں سمجھنے کی بجائے اپنی کوتاہ عقل و فہم سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، چونکہ انہوں نے اپنی عقل نارسا اور فہم ناقص کو حدیث و سنت اور ائمہ ہدیٰ کی فہم و فراست پر ترجیح دی ہے، اس لئے وہ اغوائے شیطانی کا شکار ہوگئے، اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اسلاف کی تحقیقات کو چھوڑ کر اپنی کور فہمی پر اعتماد کیا، انہوں نے ہمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اگرچہ خالد مسعود جیسے حضرات کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، لیکن ضروری تھا کہ سیدھے سادے مسلمانوں کی راہ نمائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام اور صحابیات کے ارشادات و معمولات میں سے چند ایک یہاں نقل کردیئے جاتے تو یہ سمجھنا آسان ہوتا کہ پردہ اور حجاب صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ یہ حکم تمام مسلمان خواتین کے لئے عام ہے اور اس پر قرنِ اول سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا تعامل چلا آرہا ہے۔

الجواب صحیح الجواب صحیح 

محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف 

کتبہ

عاطف علی

متخصص فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

مع تغییر یسیر واضافۃ

اپنا تبصرہ بھیجیں