چہرہ کاپردہ قرآن وحدیث سےثابت ہےیانہیں

سوال:کیافرماتےہیں  مفتیان کرام مندرجہ ذیل  مسائل کےبارےمیں کیاچہرہ کاپردہ قرآن وحدیث سےثابت ہے اس  بارےمیں کچھ دلائل ذکرفرمائیں ۔

فتویٰ نمبر:144

الجواب حامداومصلیا

  واضح رہےکہ حیاءہی وہ اہم صفت ہےجولوگوں کوگناہوں سےبچاکرمعاشرےکو پاکیزگی ،صلاح اورعفت  وعصمت عطاکرتی ہے اورحیاءہی وہ بنیادی وصف ہےکہ جب تک ایک شخص میں ہےتووہ انسان کہلانےکامستحق ہے اوراگر نہیں تووہ انسان نہیں جانوربلکہ درندوں سےبھی بدترہوجاتاہےنبی کریم ﷺ نے “حیاء” کی صفت کوایمان کےساتھ لازم ملزوم قراردیاہے۔(۱)

چنانچہ فرمایا:

مشكاة المصابيح الناشر:المكتب الإسلامي بيروت(3 / 104)

إن الحياء والإيمان قرناء جميعا فإذا رفع أحدهما رفع الآخر “

ترجمہ:بلاشبہ حیاءاورایمان ایک ساتھ ملےجلےہیں جب ان میں سےایک نہ رہےتو دوسرابھی نہیں رہتا

 ہمارےپیارےدین نےعورت کی عفت وعصمت کی حفاظت کیلئےجو قابل ِقدراحکام دئیےہیں ان میں سےایک حکم یہ ہےکہ عورت بلاضرورت گھرسے باہرہی  نہ نکلے چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

 

{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنّ} [الأحزاب : 33]

ترجمہ:اورتم عورتیں اپنےگھروں ہی میں ٹہری رہو،

نبی کریم ﷺفرماتےہیں:

مجمع الزوائد – (2 / 434)

ليس للنساء نصيب في الخروج إلا مضطرة .….وليس لهم نصيب في الطريق إلا في الحواشي

ترجمہ:عورتوں کوگھرسےنکلنےکی اجازت ہی نہیں مگریہ کہ کوئی سخت مجبوری ہو،اورعورتوں کوراستوں میں(چلنےکا)کوئی حق نہیں  ،سوائےکناروں کے۔

اورفرمایا:

صحيح ابن خزيمة – (3 / 93)

و أقرب ما تكون من وجه ربها و هي في قعر بيتها

ترجمہ:اورعورت اپنےرب کےسب سےزیادہ قریب  اس وقت ہوتی ہےجب وہ اپنےگھرکےاندرونی حصہ میں مستور ہو۔

نیزفرمایا:

سنن الترمذي – (3 / 476)

فإذا خرجت استشرفها الشيطان

ترجمہ:اورعورت جب گھرسےنکلتی ہےتوشیطان اسے آنکھیں  پھاڑ پھاڑکردیکھتاہے۔

وہ حضرات جوچہرےکےپردےکےخلاف ہیں ذراان نصوص مبارکہ میں غور فرمائیں کہ چہرے کاپردہ توبہت بعد کی بات  ہےدین اسلام توعورت کوبلاضرورت گھرسے باہرنکلنےہی کی اجازت نہیں دیتا لیکن اگربوجہ مجبوری عورت کوگھر سےنکلناپڑےتواس کیلئے چہرےکاپردہ کرناشرعاًواجب ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں :

{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ } [الأحزاب : 59]

اس آیت ِ کریمہ کی  تفسیرمیں رئیس المفسرین  حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتےہیں:

مختصر تفسير ابن كثير – (1 / 2058)

أمر الله نساء المؤمنين إذا خرجن من بيوتهن في حاجة أن يغطين    وجوههن من فوق رؤوسن بالجلابيب ويبدين عيناً واحدة          ترجمہ :اللہ تعالیٰ نےمسلمان عورتوں کوحکم دیاہےکہ وہ جب کسی ضرورت کی بناءپراپنےگھروں سےنکلیں تواپنےچہروں کونقاب سے ڈھانک لیاکریں اورصرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔

    نیزاللہ تعالیٰ نےحضرات ِصحابہ کرام ؓجیسےپاکیزہ دل  حضرات کو(جنہیں دنیاہی میں  جنت  کی  خوشخبری مل گئی ،کماقال  اللہ تعالیٰ وکلا وعد اللہ الحسنیٰ)حکم دیا:

                                                                  {وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ}[الأحزاب : 53]

ترجمہ:اورجب  ان ازواج مطہرات سےکوئی سامان مانگناہوتوپردے کےپیچھے سےمانگو۔

 اوردرج ذیل احادیث مبارکہ  روزروشن کی طرح اس بات پردلالت کررہی ہیں کہ  چہرے کا پردہ “مولویوں کی بنائی ہوئی چیز” نہیں بلکہ ہم سب کےآقانبی کریم ﷺکے مبارک  دورسےچلا آرہاہے:

مشكاة المصابيح الناشر:المكتب الإسلامي بيروت(2 / 206)

وعن أم سلمةأنها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وميمونةإذأقبل ابن مكتوم فدخل عليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : “احتجبا منه “فقلت يا رسول الله أليس هوأعمى لا يبصرنا ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”أفعمياوان أنتما ؟ أ لستما تبصرانه ؟” 

حضرت ام سلمہ ومیمونہ رضی اللہ  عنہمانبی کریمﷺکے پاس تشریف  فرماتھیں کہ (ایک نابیناصحابی )حضرت عبداللہ بن  ام مکتوم ؓ تشریف لائے،آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ تم ان سے(حضرت عبداللہ  بن اممکتوم پردہ کرو  حضرت  ام سلمہ ؓ نےپوچھا:وہ تونابینا ہیں ہمیں نہیں دیکھ سکتے تو آنحضرت ﷺنےفرمایا:کیاتم دونوں نابینا ہو؟نہیں دیکھتیں؟

سنن أبى داود- (2 / 104)

عن عائشة قالت كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات فإذا حاذوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها إلى وجهها فإذا جاوزونا كشفناه.

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺکےساتھ حالت ِ احرام میں تھے، (مردوں کی)سواریاں جب ہمارے قریب  ہوتیں توہم چہرے کوچھپالتیں اورجب وہ نکل جاتیں  تو ہم چہرہ کھول  لیتیں ۔

صحيح البخاري (1 / 162)

عن أنس بن مالك رضي الله عنه أنه أقبل هو وأبو طلحة مع النبي ﷺومع النبي ﷺصفية مردفها (يردفها) على راحلته فلما كانوا (كان) ببعض الطريق عثرت الناقة (الدابة) فصرع النبي ﷺوالمرأة وإن أبا طلحة قال أحسب قال اقتحم عن بعيره فأتى رسول الله ﷺفقال يا نبي الله جعلني الله فداءك هل أصابك من شيء قال لا ولكن عليك بالمرأة (المرأة) فألقى أبو طلحة ثوبه على وجهه فقصد قصدها فألقى ثوبه عليها فقامت المرأة فشد لهما على راحلتهما

ترجمہ:حضرت انسؓ سےروایت ہےکہ وہ اورحضرت ابوطلحہ ؓ ایک مرتبہ آنحضرتﷺکےساتھ کہیں جارہےتھے،آپ ﷺکےساتھ حضرت صفیہ ؓ بھی سوارتھیں ،راستہ میں اچانک اونٹ کوٹھوکرلگی،آنحضرتﷺاور حضرت صفیہ ؓاونٹ سےگرگئے،توحضرت ابو طلحہؓ آنحضرت ﷺکے پاس آئےاورعرض کیااللہ تعالیٰ مجھےآپ پرقربان کرے،آپکوکوئی چوٹ تونہیں آئی ؟آپ نے فرمایا:نہیں، تم عورت کی خبرلو،حضرت ابوطلحہ ؓنےپہلےتواپناچہرہ کپڑےسےچھپایا،پھرحضرت صفیہؓ کےپاس پہنچےاورانکےاوپرکپڑاڈالا،وہ کھڑی ہوگئیں ،پردہ میں مستورانکوسواری پرسوارکیا۔

 (فائدہ:اگرچہرےکاپردہ لازم نہ ہوتاتوایسی ہنگامی   حالت میں چہرہ چھپانے کی کیاضرورت تھی )

صحيح البخاري (1 / 307)

عمرة قالت سمعت عائشة رضي الله عنها تقول لما جاء قتل ابن حارثة وجعفر بن أبي طالب وعبد الله بن رواحة رضي الله عنهم جلس رسول الله ﷺ يعرف فيه الحزن قالت عائشة وأنا أطلع من صائر الباب تعني من شق الباب

ترجمہ:حضرت صدیقہ عائشہؓ سےروایت ہےکہ جب رسول اللہ ﷺ کوحضرت زید بن حارثہؓ اورحضرت جعفربن ابی طالب ؓ اورحضرت عبداللہ بن رواحۃؓ کی شہادت کی خبرملی ،توآپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف رکھتےتھے،آپ کےچہرہ مبارک پرسخت غم وصدمہ کےآثار تھے،میں حجرہ کےاندردروازےکی ایک  شق (ریخ )سےیہ سب ماجرا دیکھ رہی تھی ۔

  ملحوظہ:اگرچہرہ کاپردہ ضروری نہیں تھاتوحضرت عائشہؓ نےحجرےکےدروازےکی شق سےکیوں دیکھا،صحابہ کےمجمع میں جاکرکیوں نہیں دیکھا؟

             ایک بارحضرت افلح بن قیس  ،حضرت عائشہؓ سےملاقات کےارادےسےآئے، حضرت عائشہؓ نے ان سےپردہ کیا،انہوں نےکہاکہ میں توتمہاراچچاہوں،حضرت عائشہؓ نے فرمایا:وہ کیسے؟بولے: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایاہے،پھرجب نبی کریم ﷺسے پوچھاگیاتوآپ نےفرمایا:

سنن أبى داود – (2 / 179)

   « إنه عمك فليلج عليك ».

    وہ تمہارا(رضاعی)چچاہے تمہارےحجرےمیں داخل ہوسکتا ہے۔

     ایک مرتبہ نبی کریم ﷺنےایک پانی کےبرتن میں کلی کرکےحضرت ابوموسیٰ ؓ اورحضرت بلالؓ کووہ بابرکت پانی عطافرمایااورفرمایاکہ اسےپی لواوراپنےچہروں پرمل لو،ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ پردےکےپیچھےسےیہ واقعہ دیکھ رہی تھیں،انہوں نےاندرہی سےآوازدےکران حضرات سےفرمایا: أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا:اس  تبرّک میں سےکچھ اپنی ماں یعنی ام سلمہؓ کیلئےچھوڑدینا۔(۲)(بخاری ۲/۶۲۰)

فائدہ:  حضرت  ام سلمہؓ کامردوں میں نہ جانا،اورپردہ میں بات کرناچہرےکےپردےکی واضح دلیل ہے۔

            نیزبخاری شریف میں ہےکہ آپ ﷺ نےنامحرم ہونےکےشبہ کی بناپرحضرت سودہؓ کوعتبہ کےبیٹےسےپردہ کرنےکاحکم دیا۔(شرعی پردہ ص:۳۴)

            اسی طرح واقعہ افک کی تفصیل میں ام المؤمنین حضرت صدیقہ ؓ فرماتی ہیں :

تفسير ابن كثير – (6 / 20)

فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني، فخَمَّرت وجهي بجلبابي،

ترجمہ:جب میں نےحضرت صفوان کےاناللہ پڑھنے کی آوازسنی تومیں نےاپناچہرہ نقاب سےڈھانک لیا۔

التخريج

(۱)شعب الإيمان – (10 / 165)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” الْحَيَاءُ وَالْإِيمَانُ فِي طَلْقٍ، فَإِذَا انْتُزِعَ أَحَدُهُمَا مِنَ الْعَبْدِ اتَّبَعَهُ الْآخَرُ “

(۲)صحيح البخاري – (1 / 338)

عَنْ أَبِي مُوسَى رضي الله عنه قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَهُ أَبْشِرْ فَقَالَ قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي مُوسَى وَبِلَالٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلَا أَنْتُمَا قَالَا قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ اشْرَبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا وَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً

اپنا تبصرہ بھیجیں