“دوسرا سبق”
“سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”
“چھٹی صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی حالت”
یہ چھٹی صدی عیسوی ہے-اس وقت دنیا میں “4”بڑے مزاہب ہیں٫ 1-یہودیت٫ 2- عیسائیت٫ 3-مجوسیت٫ 4-ہندومت٫
اور حکومتیں “4-5″قسم کی ہیں-1-رومن ایمپائر 2- ایرانی سلطنت 3-برصغیر کی حکومتیں 4-عرب کا قبائلی سسٹم اور قیصر روم کی حکومت”- یہ سبھی مذاہبِ اور حکومتیں اس دور کی حکومتیں دنیا میں امن و امان قائم کرنے ٫اور اصلاح عالم میں بری طرح ناکام ہیں-کیوں ناکام ہیں٫؟ آئیے اسکے اسباب ملاحظہ فرمائیں-
“یہودیوں کی مذہبی اور سیاسی حالت”
آسمانی مزاہب میں اس وقت سب سے قدیم مذہب”یہود”کا ہے-یہود کے حالات اس وقت کیسے ہیں؟
1-ان میں عقیدہء توحید قائم نہیں رہ سکا٫کیونکہ “حضرت عزیر علیہ السلام” کو(الامان و الحفیظ) اللّٰہ تعالٰی”کا بیٹا کہنے والے پیدا ہو گئے٫ 2-توریت میں تحریف ہوچکی ہے٫موسی علیہ السلام”کی شریعت کا اصل چہرہ مسخ ہوکر رہ گیا ہے٫ 3-انکی نماز میں رکوع اور سجدہ تھا٫ لیکن ان لوگوں نے”نماز”سے سجدہ نکال دیا ہے اور بھی ہر عبادت میں اپنی طرف سے کمی کر رکھی ہے-4-سود یہودیوں کے مذہب میں حرام ہے لیکن اب وہ سود کو حرام نہیں کہتے-5-رجم کی سزا ان کے مذہب میں ہے لیکن یہ چھپاتے ہیں-بس اب یہودیت چند رسومات کا نام رہ گئ ہے-یہودیت ایک نسلی مذہب بن کر رہ گیا ہے-یہ لوگ کسی غیر یہودی کو اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرتے-نسلی تعصب اور قومیت کا گھمنڈ اتنا زیادہ زیادہ ہے کہ خود کو”اللّٰہ تعالٰی”کا محبوب کہتے ہیں- کہتے ہیں کہ ہم تو نبیوں کی اولاد ہیں ہم جنتی ہیں-اگر جہنم میں گئے بھی تو م”40″دن کے لئے جائیں گے اس سے زیادہ نہیں-نسلی تعصبات ہی کی وجہ سے وہ حق کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتے٫ 6-جادوگری اور توہم پرستی عروج پر ہے-جادوگروں کو وہ مقام حاصل ہے جو ( نعوذ باللہ)کسی نبی کا ہوتا ہے٫حتی کہ انہوں نے “حضرت سلیمان علیہ السلام” پر الزام لگایا کہ ان کی سلطنت جادو کے بل بوتے پر تھی-7-انکے علماء دنیا پرست٫زرپرست اور بکاؤ مال ہوگئے ہیں٫ پیسا دکھا کر جتنے من چاہے فتوے لےلو مل جائیں گے-توریت کے احکام کو چھپاتے ہیں٫ امیروں کو رعایت دی جاتی ہے اور غریبوں پر سختی کی جاتی ہے- امیروں کی شریعت کچھ اور غریبوں کی شریعت کچھ اور-8-انکی نافرمانی٫بغاوت٫کفرو استبداد اور ظلم و حسد کی بناء پر ایک مختصر وقت کے علاؤہ انکی کبھی کوئ سلطنت قائم نہیں رہ سکی ہمیشہ ان پر ذلت کی مہر لگی رہی-
9-مختلف وقتوں میں بادشاہوں کے مظالم سے بچنے کے لئے انہوں نے مختلف علاقوں میں ہجرت کی٫جن میں سے کچھ قبائل جیسے٫بنو نضیر٫ بنو قینقاع٫بنو قریظہ٫ مدینہ منورہ٫فدک اور خیبر کے مقام پر آباد ہوگئے اور تجارت و
زراعت کے پیشوں سے وابستہ ہوگئے-
“عیسائیوں کی مذہبی اور سیاسی صورتِ حال”
1- مذہبی صورتحال”
“عیسائی بھی “عقیدہء توحید پر قائم نہیں رہ سکے- وہ بت پرست تو نہیں ہیں لیکن”حضرت عیسیٰ علیہ السلام” کو ( نعوذ باللہ) اللّٰہ کا بیٹا کہتے ہیں-بلکہ ان کے بعض فرقے” حضرت عیسیٰ علیہ السلام” کو ہی(نعوذ باللہ) اللّٰہ” ماننے لگے ہیں-
کہتے ہیں کہ”اللّٰہ تعالٰی” آسمان سے”حضرت عیسیٰ علیہ السلام” کی صورت جلوہ گر ہوئے تھے-چوتھی صدی عیسوی تک انکے اندر”عقیدہء تثلیث سرایت کر چکا تھا-یعنی “اللّٰہ تعالٰی٫جبرائیل علیہ السلام٫اور “حضرت عیسیٰ علیہ السلام”تینوں مل کر”خدا”ہیں-(العیاذ باللہ)
2- وہ اپنے اولیاء کرام (راہبان)اور شہداء (حواری)کو اتنا زیادہ مانتے ہیں کہ بت پرستی کے قریب صورتحال ہوگئ ے-بھلا ایسی توحید پرستی کا کیا فائدہ-
4-عیسائیت فرقوں میں تقسیم ہوگئی ہے-باہم اختلاف میں پڑ کر”اصلاح عام” کا کام چھوڑ چکے ہیں-
“عیسائیت” چند رسومات کا نام رہ گئ ہے- جیسے کرسمس٫ ایسٹر٫ رسم کفارہ٫بپتسمہ وغیرہ-
“پولس”٫Polas جو نسلاً یہودی ہے٫ایک سازش کے تحت عیسائیوں میں داخل ہوا اور عیسائیت کو منحرف اور داغدار کردیا-
دوسری قوموں کی نقالی کی وجہ سے اصل عیسائیت٫روایات٫اور رسومات میں کھوگئ-
کرسمس بھی اسی نقالی اور احساس کمتری کے نتیجے میں”چوتھی صدی عیسوی” میں وجود میں آئ-کرسمس دراصل سورج دیوتا(نعوذباللہ) تہوار کا دن ہے-انہوں نے اس کا نام بدل کر کرسمس رکھ لیا-
“سیاسی حالت”
عیسائی شروع میں کمزور تھے لیکن پھر انہیں غلبہ حاصل ہوا ( سورہ الروم)پھر عیسائی سلطنت ہر دور میں قائم رہی- آج اس “چھٹی صدی عیسوی” میں”مسیحی سلطنت”کو “رومن ایمپائر” کہا جاتا ہےاور سربراہ کا لقب “قیصر” ہے-چھٹی صدی عیسوی” کے اس دور میں یہ عجیب کشمکش سے دوچار ہے-
1- مال و دولت کا حصول بڑا مقصد بن گیا ہے جس کے لئے لوگ کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہیں- انسانی ہمدردیاں کم ہو کر رہ گئ ہیں٫ہوس بڑھ کر فاصلے بھی بڑھ گئے ہیں-
2- اطاعت حاکم کا مادہ کم ہو گیا ہے٫سلطنت میں بار بار بغاوتیں ہوتی ہیں-
صرف”553″ء میں ایک فساد میں”30000″آدمی مارے جاچکے ہیں-اتنے خونخوار لوگ ہیں-
3- عوام اپنے حکمرانوں کو لعن طعن کرتے رہتے ہیں اور غیر ملکی حکومتوں کو ترجیح دیتے ہیں-
4- یہاں کے عوام کھیل تماشوں اور سرکس کے شوقین ہیں- سرکس کے میدان میں ایک وقت میں شائقین کی تعداد”80 ہزار” تک جا پہنچتی ہے-
جن شہروں سے آمدنی زیادہ آتی ہے٫مثلا مصر وغیرہ٫ انہی شہروں میں جبر و استبداد بھی زیادہ ہے-
قرض لینے کا رواج بھی عام ہو گیا ہے کیونکہ بےروزگاری بڑھ گئ ہے-
7-اتنی غربت اور مہنگائ بڑھ گئی ہے کہ عوام اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں٫حق گوئ جرم ہے اور حق گوئی کرنے والے کو سخت
سزائیں دی جاتی ہیں-
“مجوسیوں کے حالات”
“مذہبی حالت”
ادھر آتش پرستوں کے مذہبی حالات یہ ہیں”
1- مجوسیت کی اصل شکل کب کی بگڑ چکی ہے-یہ لوگ”عناصرِ اربعہ”اور آگ کے پجاری بن چکے ہیں- 2- یہ لوگ دو خداؤں کے قائل ہیں-1- نیکی کا خدا “یزداں”٫اور برائ کا خدا”اہرمن”-گو وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ بلآخر”نیکی کا خدا ہی غالب آئےگا-“ان کے ہاں عجیب و غریب رسومات اور توہمات پائے جاتے ہیں مثلاً”دھات کو زنگ ہی نہیں لگنے دیتے٫پانی کو آگ سے نہیں ملنے دیتے٫ آگ کو بجھانے نہیں دیتے٫ حجامت بنوانے اور ناخن تراشنے کو اور چراغ کی دعاؤں کو لازم سمجھتے ہیں-
ان چند رسومات اور عبادت خانے کے علاوہ خود کو آزاد سمجھتے ہیں-یعنی مذہب صرف “آتشکدہ اور رسومات” تک محدود ہے٫اس کے علاوہ زندگی میں کہیں مذہب نظر نہیں آتا-اسی لئے یہ لوگ” ظلم و بربریت” اور کسی طرح کی بھی ناانصافی سے خائف نہیں ہیں-
“سیاسی حالات”
ان کی ایران میں پارسی سلطنت قائم ہے٫اس کے سربراہ کا لقب”کسریٰ”ہے- یہ رومی سلطنت سے بڑی سلطنت ہے اور اس سے زیادہ طاقتور بھی شمار ہوتی ہے-اس سلطنت کے حالات کافی خوفناک ہیں-
1- ویسے تو یہاں کچھ “ریفارمر اور صلح جو” پیدا ہوئے جو ترک دنیا کے داعی تھے-2-٫ لیکن ایک “مصلح مزدک”Mazdak٫ پیدا ہوا جسنے” املاک” یہاں تک کہ عورتوں میں بھی مساوات کا نظریہ پیش کیا ہے٫جس کا نتیجہ نہایت خوفناک صورت میں سامنے آیا ہے- لوگ جس کے گھر میں چاہتے ہیں بلاتکلف گھس جاتے ہیں اور اس کے مال و اسباب اور عورتوں پر قبضہ کر لیتے ہیں- یہ
اخلاقی انحطاط کی ناقابل بیان صورتحال ہے-
3- بدمعاشوں اور غنڈوں کا راج ہے٫ جھوٹ٫ چغلی اور شرارت پیشے بن گئے ہیں-
4-ایک طرف” رہبانیت” اور” ترک دنیا” کے داعی پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف” لذاتیت” کے شکار جو صرف لذت اور مزہ چاہتے ہیں-
5-عوام کو ٹیکسوں نے نڈھال کر دیا ہے٫غربت ایسی ہے کہ قوم کو مویشیوں کی طرح کی زندگی گزارنی پڑتی ہے-لیکن یہاں کے”بادشاہ” ہیں کہ خود کو” خدائ نسل” کہتے ہیں ان کی عیاشیوں میں کوئ کمی نہیں آتی-
“ہندومت کی حالتِ زار”
اب بات کرتے ہیں” ہندو مذہب کی”
“ہندو مذہب”کا اصل نام “سناتن دھرم” ہے- یعنی ایسا مذہب جو ہمیشہ رہے گا- دعویٰ تو ان کا سچا کے لیکن اس وقت ان کی اصل حالت نہایت افسوسناک ہے-
1- ہندو مت کے بنیادی لٹریچرز تک رسائ مشکل ہے-صرف زبانی باتیں ہیں وہ بھی سب مشرکانہ اور دیو مالائی افسانے٫حقیقت کا اللّٰہ ہی حافظ ہے-
2-“ہندو”فرقوں اور ذات پاک میں تقسیم ہیں-
“3-ہندووں کے بتوں کی تعداد”کروڑوں” تک پہنچ چکی ہے-اس چھٹی صدی عیسوی میں یہ تعداد “33”کروڑ تک پہنچ چکی ہے-کیونکہ یہ لوگ بہت ہی زیادہ توہم پرست واقع ہوئے ہیں اس لئے ہر “نفع مند “یا “خوفناک چیز “کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اور پھر ایک نیا”بت” اور نئ کہانی وجود میں آجاتی ہے-
یہاں کے مندر اور عبادت خانے تک بے حیائ اور فحاشی سے پاک نہیں ہیں٫اس لئے ان کے مذہب نے”اس کو بھی عبادت کا رنگ دے دیا ہے-
“سیاسی صورتِ حال”
“برصغیر کی صورت حال نہایت گھمبیر ہے- سلطنت یکجا نہیں ہے-سیکڑوں ریاستیں قائم ہیں جو باہم لڑتی رہتی ہیں- ساری دنیا سے کٹ کر اپنے آپ میں مگن اور جمود اور انحطاط کا شکار٫بےچاری ہندو قوم!!!
“عورتوں کی کوئی عزت نہیں ہے٫مرد اپنی “بیوی٫بہن٫بیٹی” کو جوئے میں ہار جاتا ہے-شوہر مر جاتا ہے تو” ستی” کی رسم کا رواج ہے یعنی اگر “بیوہ” کسی اعلیٰ معزز گھرانے کی ہو تو اس کو زیورات سے لاد کر دلہن بنا کر( جلانے سے پہلے زیورات اتار دیتے ہیں) اس کے شوہر کے ساتھ زبردستی زندہ جلا دیا جاتا ہے-اور اس رسم کو شوہر سے وفاداری شمار کیا جاتا ہے-
اور اگر “غریب عورت” بیوہ ہو جائے تو اس” بیوہ کو “دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے- ساری زندگی اسے بیوہ بن کر زندگی گزارنی پڑتی ہے-
3- مذہب نے ذات پات کی تقسیم کو سند جواز فراہم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کمزور اور نچلا طبقہ پستا رہتا ہے- انہیں کوئ حقوق حاصل نہیں ہیں-
بعض اوقات انہیں “اچھوت” کا نام دے کر ابادی سے دور زندگی گزارنی پڑتی ہے-
(جاری ہے)
حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کورس-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-“