مفتی انس عبدالرحیم
بیعت کی بنیادی طور پر چار قسمیں ہیں : بیعت اسلام،بیعت جہاد،بیعت خلافت اور بیعت علی الاعمال۔
1۔بیعت اسلام، غیر مسلم سے اسلام میں داخل ہوتے وقت لی جانے والی بیعت کو کہتے ہیں۔
2۔بیعت جہاد،اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جان ومال سے جہاد قتال کرنے پر لی جانے والی بیعت کو کہتے ہیں ۔احادیث میں جہاد پر بیعت کے علاوہ “موت پر بیعت “اور نصرت پر بیعت ” کرنے کا بھی ذکر آیا ہے جو درحقیقت ” بیعت علی الجہاد ” ہیکی صورتیں ہوتی تھیں ۔
3۔بیعت خلافت :خلیفہ وقت کے ہاتھ پر اس کی اطاعت وفرماں برداری اور اس کی حکومت کو تسلیم کرنے پر بیعت کرنے کو کہتے ہیں ۔بیعت خلافت کا آغاز پہلی مرتبہ ” سفینہ بنی ساعدہ ” میں مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوا اور سب سے پہلے بیعت خؒافت کرنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔بیعت خلافت کا سلسلہ صدیوں تک عالم اسلام میں رائج رہا۔
4۔بیعت اعمال : ہر قسم کے گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کا عزم کرنے پر لی جانے والی بیعت کو کہتے ہیں۔ حضور سرور عالم ﷺ نے مختلف مواقع پر صحابہ وصحابیات (رضوان اللہ اجمعین ) سے ان کے اسلام اور جہاد پر بیعت ہونے کے باوجود “اعمال” کے لیے الگ سے بیعت کیا ہے۔قرآن وحدیث کی نصوص میں جن اعمال پر بیعت ہونے کا ذکر ہے سرسری تلاش کے بعد وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں :
1۔نماز قائم کرنا
2۔زکوۃ ادا کرنا
3۔روزے رکھنا
4۔حج ادا کرنا
5۔ہر مسلمان کےساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنا
6۔امر بالمعروف نہی عن المنکر
7۔تنگی معاش ہو یا فراخی ، ہر حال میں انفاق فی سبیل اللہ کرنا
8۔ ہر حال میں اللہ کے احکام کی اطاعت کرنا۔
9۔ہجرت کرنا
10۔گناہ کے بعد فورا نیکی کرنا
11۔کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا
12۔شریعت کے معاملے میں کسی کی ملامت اور طعن سے خائف نہ ہونا
13۔ہر معاملے میں اللہ کا تقویٰ اور خوف رکھنا
14۔اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی والی بات کہنا
15۔محبت کرنا
16۔شرک سے بچنا
17۔ زناکاری سے دور رہنا
18۔ چوری کرنا
19۔لوٹ مار اور ڈاکہ زنی نہ کرنا
20۔شوہر سے خیانت نہ کرنا
21۔غمی میں چہرہ نہ نوچنا
22۔نوحہ نہ کرنا
23۔گریبان پھاڑنا
24۔بالوں کو نہ بکھیرنا
25۔قتل ناحق نہ کرنا
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ “بیعت تصوف ” یا بیعت طریقت ” کا کوئی شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور یہ کہ شریعت میں صرف پہلی تین قسم کی بیعت ثابت ہے۔یہ فکر اور سوچ بہت بڑی غلطی ہے۔ احادیث ، آثار صحابہ اور تاریخ اسلام میں جس طرح بیعت اسلام ،بیعت جہاد اور بیعت خؒافت کا ذکر آتا ہے۔ایسے ہی “بیعت اعمال “کا بھی ذکر ملتا ہے اور “بیعت تصوف “درحقیقت یہی “بیعت اعمال “ہی ہوتی ہے ۔خطبہ مسنونہ پڑھ کر بیعت ہونے والے کلمہ پڑحایا جاتا ہے اور پھر تمام بدا عمالیوں سے دور رہنے اور نیک اعمال پر کاربند رہنے کا عہد لیاجاتا ہے ۔ کیا پھر بھی اسے بدعت اور خلاف شرع کہنے کا کوئی جواز رہ جاتا ہے ؟
ذیل میں دی گئی قرآن وحدیژ کی نصوص کوغور سے پڑھیے اور پھر ٹھنڈے دل ودماغ سے فیصلہ کیجئے کہ کیا حقیقت ہے اور کیا پروپیگنڈہ ؟
بیعت تصوف اور قرآن : سورۃ ممتحنہ میں اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں : “اے پیغمبر ! جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ ان سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لائیں گی جس کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بنالائیں اور شریعت کی باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ کریں گی تو آپ ان کو بیعت کرلیا کیجئے ۔
فائدہ : اس آیت سے بیعت کے متعلق تین باتیں معلوم ہوئیں :
1۔بیعت تصوف کی اصل ثابت ہوئی۔
2۔بیعت کی غرض معلوم ہوئی کہ بیعت کی غرض یہ ہے کہ بیعت کرنے والا شریعت پر عمل کرنے کا عزم رکھے ۔
3۔اسی سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کہ رسمی بیعت جس میں عمل کا اہتمام نہ ہو بے فائدہ ہے۔
بیعت تصوف احادیث رسول کی روشنی میں
1۔حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا: ” کیا تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں ہوتے ؟ ” اور اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا تو ہم حضور ﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آگے بڑھے اور عرض کیا : “یارسول اللہ! ہم تو پہلے سے آپ سے بیعت ہیں ۔اب ہم آپ سے کس چیز پر بیعت ہوں ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس پر بیعت ہوجاؤ کہ تم اللہ کی عبادت کروگے ۔اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کروگے ،پنج وقتہ نمازیں پڑھو گے (اور ایک جملہ آہستہ سے فرمایا کہ )لوگوں سے کوئی چیز نہ مانگو گے “
2۔حضرت ابو ذر ٖ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے پانچ مرتبہ مجھے بیعت فرمایا اور سات مرتبہ مجھ سے عہد لیا اور سات ہی مرتبہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو میرے اوپر گواہ بنا کر فرمایا کہ میں اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈروں ۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ حضور ﷺ نے چھ دن فرم،ایا : ” جو بات تمہیں بعد میں بتائی جائے گی اسے اچھی طرح سمجھ لینا۔ ” ساتویں دن آپ نے فرمایا : ” میں تم کو ہر معاملہ میں اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتا ہوں چاہے وہ لوگوں کے سامنے کا ہو یا ان سے پوشیدہ اور جب تم سے کوئی گناہ ہوجائے تو فورا نیکی کرلو اور کسی سے کوئی چیز ہر گز نہ مانگنا۔ “
3۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
“رسول اللہ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اس وقت آپ نے فرمایا : “آپ حضرات مجھ سے اس پر بیعت ہوجاؤ کہ آپ لوگ نہ تو شرک کروگے ،نہ چوری کروگے ۔نہ بدکاری کروگے ،نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے ،نہ اولاد کا بہتابن باندھوگے جسے اپنے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان کھڑا ہوا ور نہ کسی مشروع عمل میں نافرمانی کروگے ۔
فائدہ : ان تمام احادیث میں جن حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیعت لی گئی ہے ایسا نہیں کہ انہوں نے بیعت اسلام کی ہے کیوں کہ ان احادیث سے ظاہر ہے کہ وہ پہلے ہی اسلام لاچکے تھے (چنانچہ پہلی حدیث میں یہ الفاظ کہ ” ہم تو پہلے ہی آپ سے بیعت ہوچکےہیں اب ہم آپ سے کس چیز پر بیعت ہوں “اس پر صریح ہیں کہ وہ پہلے اسلام لاچکے تھے اور حضور نے ان سے بیعت “بیعت اعمال ” لی تھی ۔اسی طرح دوسری حدیث میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پانچ پانچ اور سات سات مرتبہ بیعت لینا اس پر دلیل ہے کہ یہ بیعت “بیعت اسلام ” نہ تھی ۔ تیسری حدیث میں یہ الفاظ کہ ” رسول اللہ صحابہ کی ایک جماعت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے ” اس پر دلیل ہیں کہ وہ جماعت پہلے ہی ایمان لاچکی تھی تبھی تو انہیں “صحابہ کی جماعت ” کہا ہے )۔بلکہ یہ بیعت “بیعت اعمال ” تھی جو اہل تصوف کے ہاں رائج ہے۔کیا اب بھی اسے غیر ثابت کہنے کی کوئی گنجائش رپ جاتی ہے ؟
تنبیہ : بیعت اعمال سے متعلق اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ نے حیاۃ الصحابہ جلد اول میں ان کو جمع کردیا ہے شائقین وہاں رجوع کرسکتے ہیں ۔
بیعت سے متعلق چند فوائد ومسائل :
1۔بیعت سنت ہے واجب نہیں ۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب القول الجمیل میں فرماتے ہیں کہ بیعت سنت ہے اس لیے کہ حضور ﷺ سے صحابہ نے بیعت کی اور قرب خداوندی حاصل کیا۔اس پر کوئی دلیل نہیں کہ بیعت نہ کرنے وال اگناہ گار ہوگا اور نہ ہی آئمہ میں سے کسی نے تارک بیعت پر نکیر کی ہے ۔
2۔حضور ﷺ نے عورتوں سے بیعت کی ہے لیکن جاہل اور فاسق پیروں کی طرح عورت کا ہاتھ پکڑ ر بیعت نہیں کی۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ چند عورتوں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حضور ﷺ نے فرمایا : “میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔ “زبانی بیعت ہی خواتین کے لیے کافی ہے چاہے وہ ایک ہو یا سو۔ اگر کوئی عورت کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرتا ہے یا بلا حجاب عورتوں سے میل ملاپ رکھتا ہے تو اہل حق ،صوفیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
3۔مشائخ میں یہ طریقہ رائج ہے کہ طالب کی حاضری کے بغیر اس کی درخواست پر بیعت کردیتے ہیں ۔ یہ”غائبانہ بیعت ” کہلاتی ہے ۔ حضور ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ” بیعت رضوان ” کرتے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے غائبانہ بیعت کی تھی ، غزوہ بدر کے موقع پر بھی حضور نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے غائبانہ بیعت کی تھی ۔اسی وجہ سے غائبانہ بیعت کو “بیعت عثمانی ” بھی کہتے ہیں ۔
4۔بعض لوگوں کی حالت تجربہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ بیعت پر قائم نہیں رہ سکتے یا مجاہدات کا حق ادا نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی انہیں حضرات مشائخ بعض اوقات بیعت کر لیتے ہیں ۔اس کی اصل یہ حدیث ہوسکتی ہے :المرء مع من احب ولہ ما کسب” یعنی بروز قیامت آدمی اس شخص کے ساتھ ہوگا جس سے وہ دنیا میں محبت رکھتا ہوگا اور ثواب اس چیز کا ملے گا جو اس نے عمل کیا ہوگا۔۔۔اس لیے کہ بیعت میں یہ خاسیت ہے کہ اپنے مشایخ سے محبت کا سبب ہوھاتی ہے اور بعید نہیں کہ یہی چیز قیامت کے دن اسے اپنے مشایخ کے ساتھ کردے ۔
Nice
Good information