فتویٰ نمبر:986
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
کیا مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھانے اسے گالیاں دینے اورلعن طعن کرنے کی دین اسلام سے اجازت ہے ؟؟؟ کیونکہ وہ مرد ہے؟؟؟
والسلام
سائل کا نام: امۃ اللہ
پتا:کراچی
الجواب حامدۃو مصلية
اسلام ايك مكمل باضابطه نظام حیات ہے اسلام نے میاں بیوی دونوں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا ہے لہذا مرد کو مطلقا بیوی کو مارنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اگر شوہر بیوی میں کوئی بات قابل اصلاح اور بری دیکھے تو اس کی اصلاح کی فکر کرے پہلے تو ان کو نرمی خوش اخلاقی اور محبت سے نصیحت كرے، یہ اصلاح کا پہلا درجہ ہے اگر نصیحت کا اثر نہ ہوتو پھر اصلاح کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ سونا چھوڑدے، اپنا بستر الگ کردے اور اگراصلاح کا دوسرا درجہ بھی کارگر ثابت نہ ہو تو پھر تیسرا درجہ اور آخری چارۂ کار كےطور پر شوہر کو شرعا مارنے کا حق ہے، لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ بیوی صرف چار باتوں پر بیوی کو مار سکتا ہے جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے :
1. شوہر کی خواہش وحکم کے باوجود بیوی زینت وآرائش نہ کرے۔
2. شوہر جماع کا خواہش مند ہو مگر بیوی کوئی عذر جیسے حیض وغیرہ نہ ہونے کے باوجود انکار کر دے۔
3. اسلامی فرائض جیسے نماز چھوڑ دے، جنابت وناپاکی کے بعد نہ نہائے۔
4۔ شوہر کی اجازت ورضامندی کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہو۔
البتہ مارنے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہلکے سے مارا جائے مثلاً ہاتھ سے کندھے پر تین دفعہ ماردیا يا مارنے کے لیےمسواك استعمال كرليا لیکن بہرصورت نہ مارنا بہتر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ مارنے کی اجازت کے باوجود احادیث میں کہیں یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی زوجہ پر ہاتھ اٹھایا ہو۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہلکی مار مارنا گو جائز ہے مگر مقصود سمجھانا اور اصلاح ہو اذیت یا تکلیف دینا نہیں اس لیے تکلیف دینے والی ایسی مار جس سے نشان پڑجائے جائز نہیں ہے، بہر صورت مارنے سے اجتناب کر نا چاہیے کیونکہ یہ غیر شریفانہ فعل ہے ،لہذا جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے بیوی کو بے حد مارنا ، گالیاں دینا ، لعن طعن کرنا یہ سب جہالت اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے دین اسلام جس کی اجازت نہیں دیتا۔
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر۔””
(صحیح البخاري ۲؍۸۹۳)
”عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذي۔”
(مشکاۃ المصابیح ۲؍۴۱۳)
“قال ابن عباس : إذا أطاعته في المضجع ، فليس له أن يضربها.الضرب غير المبرّح :أي المؤذي إيذاء شديدا كالضّرب الخفيف باليد على الكتف ثلاث مرات ، أو بالسواك أو بعود خفيف لأن المقصود منه الصلاح لا غير ۔۔۔ ولا يضربها بسوط ولا بعصا ، وأن يراعي التخفيف لأن المقصود هو الزّجر والتأديب لا الإيلام والإيذاء ، كما يفعل بعض الجهلة.ومع أن الضرب مباح فإن العلماء اتّفقوا على أن تركه أفضل.”
(التفسير المنير : ۵۶/۵)
” وله أن يضربها على اربعة منها ترك الزينة ،اذا أراد الزوج الزينة والثانية :ترك الإجابة اذا أراد الجماع وهي طاهرة والثالثة : ترك الصلوات وترك الغسل عن الجنابة والحيض بمنزلة ترك الصلاة والرابعة : الخروج عن منزله بغير بإذنه “
( فتاوى قاضي خان على هامش عالم كيري :1/442)
و اللہ سبحانہ اعلم
✍بقلم : بنت محمود عفی عنہا
قمری تاریخ: رمضان ١٤٣٩ھ
عیسوی تاریخ: مئی ٢٠١٨ ء
تصحیح وتصویب:
مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: