سوال:- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مذکورہ مسئلوں میں اگر سسرالی رشتہ دار اور شوہر کو مذکورہ حقوق حاصل نہیں ہیں تو پھر تجہیز وتکفین کے اخراجات شوہر کیوں برداشت کرے یا کون کرے؟ ایصالِ ثواب کے لئے بھی میکہ والوں کو ہی سب کچھ کرنا چاہئے اس لئے کہ بیوی کے مرنے کے بعد شوہر سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مفتی بہ قول یہ ہے کہ متوفیہ بیوی کے کفن دفن کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے۔
اور فقہ کا ضابطہ یہ ہے کہ جس پر زندگی میں نان نفقہ واجب ہوتا ہے، اسی پر مرنے کے بعد تجہیز وتکفین کا انتظام لازم ہوتا ہے۔
والفتویٰ علی وجوب کفنہا علیہ۔ (درمختار ۲؍۲۰۶ کراچی، ۳؍۱۰۱ زکریا)
واختلف في الزوج، والفتویٰ عی وجوب کفنہا علیہ عند الثاني، وإن ترکت مالاً (الدر المختار) … أنہ یلزمہ کفنہا وإن ترکت مالاً وعلیہ الفتویٰ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ / باب صلاۃ الجنازۃ ۳؍۱۱۹ رشیدیۃ)
وفي الہندیۃ: یجب الکفن علی الزوج وإن ترکت مالاً وعلیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ / الباب الحادي والعشرون في الجنائز ۱؍۱۶۱ رشیدیۃ، البحر الرائق ۲؍۳۱۱ رشیدیۃ، امداد الفتاویٰ، کتاب الصلاۃ / باب الجنائز ۱؍۵۸۸، احکام میت ۵۱)
ویکفن المیت من جمیع مالہ قبل الوصایا والدیون والمواریث، ومن لم یکن لہ مال فکفنہ علی من یجب لہ نفقتہ، إلا المرأۃ فإنہ لا یجب کفنہا علی زوجہا عند محمد، خلافاً لأبي یوسف، فإن عندہ یجب علیہ الکفن وإن ترکت مالاً ، وفي الکبریٰ: وبہ یفتی۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الجنائز / التکفین ۳؍۳۱ رقم: ۳۶۵۷ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۳؍۱۲؍۱۴۱۵ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ