سوال:السلام وعلیکم!
عورت کا انتقال ہوجائے تو کیا شوہر اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہے؟ اور کیا شوہر کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو قبر میں اتارے؟ اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ عورت کو اسکے بھائی یا والد یا ماموں، چاچا یا بیٹا ہی قبر میں اتاریں ۔۔۔یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟ آپ رہنمائی فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا
جواب:وعلیکم السلام!
1۔ بیوی کے انتقال کے بعد شوہر بیوی کو صرف دیکھ سکتا ہے، چھونا یا بوسہ دینا جائز نہیں؛ کیونکہ انتقال سے اس کا نکاح ختم ہو جاتا ہے۔
“قال الحصکفي : وینمع زوجها من غسلها و مسها لا من النظر الیها علی الأرجح”.
(الد المختار مع رد المحتار : ۳/۹۰، باب صلاة الجنازة ، ط: زکریا )
“ویمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إلیها علی الأصح، وهی لا تمنع من ذلك أی من تغسیل زوجها دخل بها أو لا”.
(شامی، کتاب الجنائز ، ۲/۱۹۸ ، ط: سعید)
2۔ بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کا اسے قبر میں اتارنا جائز ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ بیوی کے محارم ( باپ، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ میں سے کوئی) اس کو قبر میں اتارے۔
“وذو الرحم المحرم أولی بادخال المرأة من غیرهم، وکذا ذو الرحم غیر المحرم أولی من الأجنبي”.
(الفتاوی الہندیة :۱/۲۲۷، کتاب الصلاة، باب الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان الی مکان، ط: زکریا )