محمد اویس پراچہ
جامعۃ الرشید ،کراچی
“بٹ کوائین کی حقیقت اور اس کا شرعی حکم “مصنفہ مفتی سلمان مظاہری صاحب ،ایک مختصر علمی جائزہ
گزشتہ دنوں جناب حضرت مفتی محمد سلمان مظاہری صاحب دامت برکاتہم کی ایک تحریر منصہ شہود پر آئی ہے جس کا عنوان “بٹ کوئین کی حقیقت اور اس کا شرعی حکم “ہے۔ بندے ایک نہایت مہربان اور قریبی عزیز نے یہ رسالہ بندے کو ارسال کیا اور اس کے بارے میں رائے طلب کی ۔حکم کی تعمیل میں اس”علمی جائزے” کی ترتیب کی جارہی ہے۔
اس عمدہ اور تحقیقی رسالے میں جناب مفتی صاحب نے بٹ کوائین کی ماہیت اور تفصیل بیان کی ہے جبکہ حکم کے طور پر دارالعلوم دیو بند سے جاری ہونے والے دو فتاوی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا خاکہ یوں ہے کہ ابتداء میں جناب مفتی و شیخ الحدیث حضرت مولانا شعیب اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کی تقریظ کے بعد اس موضوع کی اہمیت سے متعلق ابتدائیہ ہے ۔اس کے بعد دنیاکے کرنسی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس کے بعد مفتی صاحب نے بٹ کوائین کی حقیقت ،اس کی وجہ تسمیہ،اس کی ابتداء اس کی بناوٹ اور طریقہ استعمال ،اس کی پشت پر موجود بلاک چین ٹیکنالوجی کی تفصیل اور اس کے حصول کے طریقہ کار پر بحث فرمائی ہے ۔اس کے بعد اس کے غلط استعمال اور پیپر کرنسی سے اس کا موازنہ کرنے کے ساتھ اس کی قیمت کے اتار چڑھاؤ ، اس کے جوا ہونے یا نہ ہونے ،اس کی مقبولیت کی وجہ اور اس کے فوائد و نقصانات کو تحریر کیا ہے ۔آخر میں اس میں سرمایہ کاری کرنے کی ممانعت سے ساتھ ساتھ اس کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔
ہم اس میں صرف ان نکات کا جائزہ لیں گے جن کے بارے میں ہم مفتی صاحب دامت برکاتہم سے مختلف رائے رکھتے ہیں اور اس اختلاف کا اثر بیان کردہ حکم پر پڑ سکتا ہے۔اس دوران اگر اصل رسالے کو سامنے رکھا جائے تو اس علمی جائزے کا مکمل فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
حسی وجود یا غیر حسی نمبرات:
)کہا جاتا ہے یعنی اس قسم کی virtual currency حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: “ڈیجیٹل کرنسی کو اصطلاح میں مجازی /غیر حسی کرنسی
کرنسی کا کوئی حسی وجود کسی بھی شکل میں نہیں ہوتا،اس کا وجود چند پیچیدہ نمبرات(جس کو اندازے سے بناناتقریباً نا ممکن ہوتاہے)کی صورت میں کمپیوٹر کے سرور یا کسی ڈیجیٹل ڈیوائس پر ہوتا ہے”۔(ص:16)
اسی”حسی وجود نہ ہونے”کی بنیاد پر دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے جو مفتی صاحب نے انتہاء میں ذکر کیا ہے:”بٹ کوئن یا کوئی بھی ڈیجیٹل کرنسی ،محض فرضی کرنسی ہے،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف و شرائط بالکل نہیں پائی جاتیں۔اور آج کل بٹ کوئن یا ڈیجیٹل کرنسی کی خریدو فروخت کے نام سے نیٹ پر جو کاروبار چل رہا ہے ،وہ محض دھوکہ ہے،اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔”
اول:کسی چیز کے مال ہونے کے لیے اس کا حسی وجود یا عین ہونا شرط نہیں ہے۔ ایسی اشیاء جو اپنے اظہار کے لیے کسی دوسری چیز کی محتاج ہوں،وہ بھی اس وقت مال کہلاتی ہیں جب عوا م میں ان کی جانب میلان طبع پایا جائے۔چنانچہ بجلی اور گیس کو شرعاً و عقلاً مال ہی سمجھا جاتا ہے۔
امداد الفتاوی میں ہے: “بجلی بھی مال ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔۔۔۔۔”(1)
شیخ الاسلام جناب مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
” و ان الکھرباء و الغاز اصبحا الیوم من اعز الاموال التی یجری فیھا التنافس، و یصعب ادخالھما فی الاعیان القائمۃ بنفسھا، و مع ذلک یجوز بیعھما و شراؤھما و قد تعامل الناس بذلک من غیر نکیر”۔
“بجلی اور گیس ایسے عمدہ اموال میں سے ہو چکے ہیں جن میں لوگوں کی خواہش پائی جاتی ہے ۔انہیں ان اعیان میں داخل کرنا مشکل ہے جو بذات خود قائم ہوتی ہیں ۔ ا س کے باوجود ان کی خریدوفروخت درست ہے اور لوگوں کا ان پر بغیر کسی نکیر کے تعامل ہے”۔
ورچوئل کرنسیاں بھی بجلی کی طرح ہی اپنی ذات رکھتی ہیں لیکن اپنے اظہار کے لیے آلات کی محتاج ہوتی ہیں ۔ ہم انہیں صرف ہندسے بھی سمجھ لیں تو بھی انہیں فرضی کہنا درست نہیں بلکہ یہ صرف غیر حسی ہیں ۔اس پر دلیل یہ ہے کہ انہیں اسی طرح محفوظ کیا جاسکتا ہےاور بوقت ضرورت حاصل کیا
1: تھانوی ؒ: اداد الفتاوی ،3/498،ط:1421ھ،ن:مکتبہ دارالعلوم کراچی
2: محمد تقی عثمانی : فقہ البیوع علی المذاھب الاربعۃ،1/27،ط:1436ھ،ن:مکتبۃ معارف القرآن
جاسکتا ہے جس طرح کہ بجلی کوکسی جگہ محفوظ کیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت حاصل کیا جاتا ہے ۔بجلی ایک عین ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی اور چیز کی محتاج ہوتی ہے ۔ا س کا عین ہونا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے محفوظ کیا جاسکتا ہے ،منتقل کیا جاسکتاہے اور بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکتاہے ۔اسی طرح یہ ہندسے بھی محفوظ کیے جاسکتے ہیں ،منتقل کیے جاسکتے ہیں اور بوقت ضرورت استعمال کیے جاسکتے ہیں لیکن اپنے وجود کے لیے کمپیوٹر کے آلات کے محتاج ہیں ۔ایسی صورت میں جب انہیں عرف میں مال سمجھا جائے تو یہ بجلی کی طرح ہی مال کہلائیں گے۔
دوم: کسی چیز کے “حسی”ہونے کا مدار کیا ہے؟اگر صرف انہیں چیزوں کو حسی کہا جاسکتا ہے جو حواس خمسہ سے محسوس ہوں اور کسی آلے کی ضرورت ہو تو یہ بات بداہۃ درست نہیں ہے ۔دنیا میں ایسی بہت سی حسی اشیاء(حتی کہ جاندار،جرثومے وغیرہ) ہیں جنہیں آلات کی مدد حاصل کیے بغیر محض حواس خمسہ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا۔لھذاان تمام چیزوں کو بھی حسی سمجھا جائے گا جنہیں آلات کی مدد سے محسوس کیا جاسکتا ہو۔
اس تفصیل کے بعد ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کمپپیوٹر میں محفوظ ہونے اور عمل میں آنے والی کوئی چیز درحقیقت کس شکل میں ہوتی ہے ۔عوام میں اس بارے میں مشہور ہے کہ کمپیوٹر میں ہر چیز ہندسوں اور کوڈکی شکل میں محفوظ ہوتی ہے ۔لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ۔کمپیوٹر میں ہر چیز بجلی کی شکل میں موجود ہوتی ہے اور بجلی کے مخصوص سگنلز انسانوں کےسمجھنے کے لیے ہندسوں اور کوڈز کی شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے ۔
جب ہم کسی چیز کو کمپیوٹر میں محفوظ کرتے ہیں تو کمپیوٹر اسے 0اور 1 کی شکل میں محفوظ کرتا ہے ۔اسے مشین لینگویج کہا جاتا ہے اور اس کا اظہار 0اور 1 میں ہم اپنے سمجھنے کے لیے کرتے ہیں ۔کمپیوٹر کے لحاظ سے 0 کا مطلب “کسی تار میں بجلی کا نہ ہونا “ہے اور 1 کا مطلب”کسی تار میں بجلی کا ہونا” ہے۔ہم محفوظ کرتے ہیں A ہر تار کو ایک “بٹ”کہہ سکتے ہیں اور کمپیوٹر ہر لفظ کو کم از کم آٹھ بٹ یعنی آٹھ تاروں کو ملا کر محفوظ کرتا ہے ۔اگر ہم کمپیوٹر میں لفظ
تو اس کا کوڈ یوں ہوتا ہے:01000001۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کمپیوٹر آٹھ تاروں میں سے دوسری اورآخری تار میں بجلی بھیجے گا اور باقی تاروں میں بجلی نہیں بھیجے گا۔یہ بجلی ہارڈڈسک میں مقناطیسی شکل میں محفوظ ہو جاتی ہے ۔کمپیوٹر بوقت ضرورت اس محفوظ شدہ مقناطیسی شکل کی بجلی کو محسوس
کی شکل میں دکھاتا ہے۔(3)Aکرتا ہے اور ہمیں اسکرین پر
3: Ron White: How computers work, page 144, Eight Edit, Published by QUE.;
Https:/ /en.wikibooks.org/wiki/wikijunior:How_Things_work/Binary.
چونکہ یہ بجلی کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہوتی ہے اور اس کو مخصوص آلات (ہارڈڈسک کے آلات) کی مدد سے محسوس کیا جاسکتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ کمپیوٹر میں محفوظ چیز”غیر حسی “ہوتی ہے ،درست معلوم نہیں ہوتا۔ورچوئل کرنسیاں بھی کمپیوٹر میں اسی طرح محفوظ ہوتی ہیں اور انہیں بھی “غیر حسی “یا “فرضی “کہنا اور اس بنیادپرحکم لگانامحل نظر ہے۔
کے معنی:Bit coin
کا مجموعہ ہے جس کے معنیCoinاور Bitمفتی صاحب فرماتے ہیں :”پہلے پہل یہ لفظ بٹ کوائین31اکتوبر2008ءکواستعمال کیاگیاجوکہ دو الفاظ
خفیہ کرنسی کے ہیں(ص:17)
کمپیوٹر ڈیٹا کی سب سے چھوٹی اکائی کے لیے Bitکا مذکورہ معنی مفتی صاحب نے کہاں سے نقل فرمایاہے۔البتہ لفظ Bitہمیں یہ معلوم نہیں کہ لفظ
استعمال ہوتا ہے ۔آٹھ بٹ سے مل کر ایک “بائٹ”بنتا ہے اور انگریزی زبان کا ہر حرف کمپیوٹر میں ایک بائٹ یعنی آٹھ “بٹ” کا ہوتا ہے ۔اس کی کچھ
کے چالیس سے زیادہ معانی مذکور ہیں جن میں سے ہمارا ذکر کردہ معنی کمپیوٹر کے Bitتفصیل اوپربھی گزرچکی ہے ۔مقتدرہ انگریزی اردو لغت میں
میدان سے متعلق ہونے کی وجہ سے قریب ترین ہے ۔(4)
4: مقتدرہ قومی زبان :قومی انگریزی لغت ،1/209، ط: پنجم، ن الحمراء پبلشنگ اسلام آباد
مائننگ:
حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں :بٹ کوائین مائننگ کرنے والے دو کام کرتے ہیں ،پہلا کام بٹ کوائی نیٹ ورک پر کی جانے والی خرید و فروخت
کی تصدیق کرنا اور دوسرا کام بٹ کوائین بنانا،نئے بٹ کوائین مائننگ کرنے کے لیے بہت سارے پاور فل کمپیوٹرس کو ایک ساتھ (Transactions)
حل کروائے جاتے ہیں ،تو ان کیلکولیشنزکو حل کرنے کے بدلے میں کمپیوٹر کے مالک کو(Mathematical Calculation)میتھامیٹیکل کیلکولیشن
انعام کے طور پر بٹ کوائین دیے جاتےہیں (ص:20)
ہماری رائے میں اگر مائننگ کے عمل کو آسان اور مختصر انداز میں بیان کیا جائے تو مذکورہ عبارت درست ہے ۔بٹ کوائین مائیننگ کے ذریعے نئی بٹ کوائین مائننگ کے ذریعے نئی بٹ کوائین وجود میں آتی ہے،اس میں ریاضیاتی عمل ہوتا ہے اور اس کے عوض یا انعام کے طور پر مائنر کو بٹ کوائین دیے جاتے ہیں ۔لیکن ان تمام افعال کا آپس میں انتہائی اہم ربط ہے اور اس ربط کو جانے بغیر ان سے غلط نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ ہم اس کی کچھ تفصیل بیان کر دیتے ہیں :
مائننگ کیا ہے؟
“Mining is the process by which new bit coin is added to the money supply. Mining also serves to secure the bit coin system against fraudulent transactions or transactions spending the same amount of bit coin more than once, known as a double-spend.”(5)
“مائننگ وہ عمل ہے جس کے ذریعے کوائین زر کی مارکیٹ میں شامل ہوتی ہیں ۔مائننگ جعلی ٹرانزکشن یا ایسی ٹرانزکشن جن میں ایک ہی رقم کو دوبارہ خرچ کر دیا جائے(جسے “ڈبل اسپینڈ” کہتے ہیں) کے خلاف بٹ کوائین سسٹم کی حفاظت بھی کرتی ہے ۔”
5: Antonopoulos: Mastering Bit coin, page: 117, Edition: First publisher: O’REILLY
جب دو افراد آپس میں لین دین کرتے ہیں اور ایک شخص دوسرے کو کچھ رقم بذریعہ انٹر نیٹ بھیجتا ہے تو یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔
1: کیا بھیجنے والا اس رقم کا مالک تھا؟(اس کے پاس کہاں سے آئی تھی)
2: کیا وہ اسے پہلے کہیں خرچ تو نہیں کر چکا تھا؟
ورچوئل کرنسی کے موجد ستوشی ناکا موٹو لکھتے ہیں:
“A common solution is not introduced a trusted central authority, or mint, that checks every transaction for double spending.”(6)
” ایک عمومی حل یہ ہے کہ ایک مرکزی قابل بھروسہ ادارہ یا کان متعارف کروادی جائے جو ہر لین دین کا دہری ادائیگی (سے بچنے)کے لیے جائزہ لیے۔”
6: Satoshi Nakamoto: Bit Coin: A peer –to-peer Electronic Cash System, Page2
لیکن ورچوئل کرنسیاں “ڈی سینٹر لائزڈ”کرنسی کا معنی ہی یہ ہے کہ اس کا دارومدار کسی ایک ادارے یافرد پر نہ ہو ۔اس لیے یہ حل ورچوئل کرنسیوں میں قابل عمل ہی نہیں ہے ۔ناکاموٹونے اس کا حل یہ نکالا کہ جس کو رقم منتقل کی گئی ہے وہ خود اس کی تصدیق ککرے یا کوئی تیسرا فرد اس کی تصدیق کرے ۔ابتداء میں بٹ کوائین کا ہر سافٹ وئیر مائننگ کی صلاحیت رکھتاہے۔
کسی ٹرانزکشن کی تصدیق کے لیے ضروری ہے کہ تصدیق کرنے والے کو گزشتہ تمام ٹرانزکشنوں کا علم ہو۔ان گزشتہ ٹرانزکشنوں کو ترتیب میں رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ انہیں “وقت” کے حساب سے اس طرح مرتب کیا جائے کہ ایک وقت میں ٹرانزکشنوں کے ایک بلاک یا مجموعے کی ہی تصدیق ہو۔اس کا م کے لیے ایک “ٹائم اسٹیمپ سرور”بنایا جاتا ہے جو چیزوں کو وقت حساب سے ترتیب دیتاہے ۔یہاں پھر وہی مسئلہ سامنے آیا کہ اس کے لیے ایک مرکزی کمپیوٹر ہوناچاہیےجس تک تمام ٹرانزکشن آئیں۔ایک سے زائد سرور ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی سرور الگ الگ ٹرانزکشنوں کی تصدیق کر کے انہیں آگے بھیج دیں اور اس طرح ترتیب خراب ہوجائے۔کسی بھی قسم کی ترتیب کی خرابی کسی جعلی سازی کرنے والے کو فائدہ پہنچا سکتی ہے ۔
لہذا ناکاموٹو نے اس میں “میشنگ” کاریا ضیاتی عمل ڈالنے کا فیصلہ کیا(7)۔”میشنگ ایک ایسا عمل ہے جسے کچھ وقت درکار ہوتا ہے ۔ناکاموٹو نے اس میں ذرا سی ترمیم کی اور اس عمل کو 10منٹ تک مقید کردیا ۔یعنی بٹ کوائین کے ہر بلاک کی تصدیق اوسطاً 10 منٹ میں ہوتی ہے ۔اتنے وقت میں دنیا بھر میں موجود کمپیوٹروں کے ریکارڈ میں نئی معلومات پہنچ چکی ہوتی ہیں جب ایک بلاک کی تصدیق ہوجاتی ہے تواس میں موجود ٹرانزکشنوں کی معلومات بھی دنیا بھر کے کمپیٹروں تک پہنچناشروع ہوتی ہیں اور ان کے 10 منٹ میں وہ بھی پہنچ جاتی ہیں۔ورچوئل کرنسی استعمال کرنے والے ہرکمپیوٹر کو”نوڈ
کہا جاتاہے۔(Node)
اس دس منٹ کے وقفے کےتین فائدے ہوتےہیں:
1: کوئی حملہ آوراگرکسی بنے ہوئےبلاک کوتبدیل کرنے کی کوشش کرتاہےتواسےاس کے آگےموجودتمام بلاکوں کوتبدیل کرنا پڑتاہے۔چونکہ وہ بھی دس منٹ کی حد میں مقید ہوتا ہے اس لیے وہ جب تک آگے کے بلاکوں کو تبدیل کرتا ہے ان سے آگے اور بلاک بن چکے ہوتے ہیں ۔جب وہ اپنا ڈیٹا تمام نوڈزکوبھیجتاہے تواس کے غیرمطابق ہونےکی وجہ سے ساری نوڈیں اسےردکردیتی ہیں۔
2: اگر جعلی سازکچھ نوڈوں کوحاصل کرکےان کے سافٹ وئیر میں گڑبڑکرکےاورانہیں اکثرظاہرکرناچاہےاورمکمل ریکارڈتبدیل کرنا چاہےتب بھی وہ دس منٹ کی حد کی وجہ سے یہ نہیں کرسکتااوردس منٹ میں اس کے مخالف حقیقی نوڈوں کی اکثریت ہو جاتی ہے۔
3: اگر کوئی حملہ آوربہت زیادہ کمپیوٹنگ پاور جمع کرکے زبردستی بلاکوں میں تبدیل کرنا چاہے تو بلاک اسی حساب سے مشکل ہو جاتے ہیں اور اس کی کمپیوٹنگ پاور کے باوجود دس منٹ سے کم میں ان ہیشنگ مکمل نہیں ہوتی۔
7: Satoshi Nakamoto: Bit Coin: A Peer-to-Peer Electronic Cash System, Page3
دس منٹ کا وقفہ “بٹ کوائین” میں ہے جو کہ ستوشی ناکاموٹو نے خود تیار کی تھی۔اس کے علاوہ جو کرنسیاں ہیں ان میں فرق بھی ممکن ہے جیسے “لائٹ منٹ میں تصدیق شدہ ہوجاتاہے۔کم وقت والی کرنسی کو زیادہ خطرے میں سمجھاجاتاہے۔2. کوائین” کا ہر بلاک5
“ہیشنگ کایہ عمل دس منٹ تک مقید رہنے کے لیے جتنامشکل ہوتاجاتاہےاتنی ہی کمپیوٹر کی قوت اس کے لیےدرکارہوتی ہے۔اگر کبھی یہ اتنامشکل ہو جائے کہ بلاک دس منٹ سے زیادہ میں تصدیق شدہ ہو رہا ہو تو سافٹ وئیر اسے خود بخود تھوڑ اآسان کر دیتا ہے ۔”کمپیوٹنگ پاور”کے لیے مائنر کو آلات،بجلی اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ہی اسے مستقبل کام بھی کرنا ہوتا ہے۔اب سوال یہ تھا کہ کوئیئی شخص ایسا کیوں کرے گا؟ ناکاموٹو نے
“کی شکل میں پیش کیا(8)۔اس نے کہا کہ بطور محرک تصدیق کرنے والے فرد کو دو چیز یں ملیں گی:(Incentive) اس کا حل”محرک
1: کچھ نئی بٹ کوائن وجود میں آئیں گی جو اسے ملیں گی (جب تک کوائین وجود میں آنے کا امکان ہوگا کیوں کہ 21 ملین سے زائد بٹ کوائین وجود میں نہیں آسکتیں)۔
2: ٹرانزکشن بھیجنے والا جو فیس دے گا وہ تصدیق کرنے والے کو ملے گی (اگر وہ کوئی فیس ادا کرے)۔اس تصدیق کرنے والے کو “مائنر(کان کن)” کہا جاتا ہے۔مائنر یہ تصدیق کا عمل انفرادی طور پر بھی کر سکتے ہیں اور اجتماعی طور پر کئی مائنر جمع ہو کر بھی کر سکتے ہیں۔بٹ کوائین جیسی مشکل ترین مائینگ اکثر کئی مائنر مل کر کرتے ہیں ۔بدلے میں ملنے والی بٹ کوائین وہ آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مائنر کاریاضیاتی عمل کرنا،اس کے لیے طاقت ور کمپیوٹر وں کا استعمال کرنا ،اس کے جواب میں بٹ کوائین کا وجود مین آنا اور یہ نئی بٹ کوائین اس مائنر کو ملنا، یہ سب کام مضبوط وجوہات کی بناء پر ہوتے ہیں اور یہ محض ایک کھیل کی طرح نہیں ہے۔ یہ تمام کام بٹ کوائین کو جعل سازی سے بچانے کے لیے ایک مکمل نظام کے طور پر ترتیب دیے گئے ہیں ۔اگر یہ تفصیل اور ربط مد نظر نہ ہو تو یہ سارا عمل ایک کھیل یا اس سے بڑ ھ کر ایک جوے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
8: Satoshi Nakamoto: Bit Coin: A Peer-to-Peer Electronic Cash System, Page 4
منجمد بٹ کوائین ؟کیسے ؟
بند کیا اور (Ban)نےFBIکو Silk road جناب مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں : “سنہ 2013میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اس ویب سائٹ
28ملین امریکی ڈالر تھے۔”(ص:21).5 کو منجمد کردیا ،اس وقت قیمت (Bit Coin)اس کے تقریباً ایک لاکھ سے زائد بٹ کوائین
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بٹ کوائین امریکی حکومت اور ایجینسیوں کے اختیار میں ہے جو اسے منجمد کر سکتی ہیں ؟یہ اشکال اس کی مضبوطی اور پائیداری پر سوال اٹھاتا ہے ۔ایف بی آئی یا کوئی بھی حکومت بٹ کوائین کے کسی بھی اکاؤنٹ کو منجمد نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ کرنسی کسی حکومت کے اختیار میں نہیں ہوتی۔امریکی ایجنسیاں جب کسی مجرم کو گرفتار کر تی ہیں جو بٹ کوائین یا کوئی ورچوئل کرنسی استعمال کرتا ہے توا س سے یا اس کے کمپیوٹر سے اس کی “پرائیوٹ کی” حاصل کرتی ہیں اور اس کے اکاؤنٹ یا ایڈریس پر موجود بٹ کوائین کو اپنے کسی اکاؤنٹ میں منتقل کردیتی ہیں(9)۔یہ بٹ کوائین عموماً بعد میں عوام کوکم قیمت پر فروخت کر دی جاتی ہے(10)۔اگر ایجنسیاں یہ”پرائیوٹ کی”حاصل نہ کر پائیں تو وہ ان بٹ کوائین کو اپنے اکاؤنٹ میں منتقل بھی نہیں کر سکتیں ہیں۔اس کے برعکس بینک اکاؤنٹس میں موجود عام کرنسی مکمل طور پر حکومتوں اور ایجنسیوں کے اختیار میں ہوتی ہے اور وہ اسے پریشانی کے بغیر منجمد کر سکتی ہیں۔
9: https:/ / bit coin.stackexchange.com/questions/13973/how-did-the-fbi-seize-260000-btc
10: http:/ /www.businessinsider.com/bitcoin-price-government-auction-winers-2017-5
بٹ کوائین اور جوا :
حضرت مفتی صاحب بٹ کوائین کو جوے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا کہ بٹ کوائین حقیقت میں لوگوں کے رحجان
کرنے والے کے ذہن میں شروع سے ہی یہ بات ہوتی ہے کہ 50 فیصد (Invest) اور عدم رحجان پر منحصر ہوتی ہے،تو اب ہر بٹ کوائین میں انوسٹ
چانس ہیں اس کی قیمت بڑھنے کے اور 50 فیصد چانس ہیں اس کی قیمت کے گھٹنے کے، یعنی انوسٹر کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر لوگ زیادہ سے زیادہ بٹ کوائین میں انوسٹ کریں گے تو بسب اس کی ڈیمانڈ کے مجھے نفع ہوگا ۔اس کے بالمقابل اگر لوگ بٹ کوائین میں پیسہ لگانے کے بجائے بٹ
کےمجھے ان دو چیزوں کے درمیان معلق ہوتا ہے۔ (Over Supply) کوائین سے پیسہ نکالنا شروع کر دیں گے تو بسب اس کی
(Gambling) لہذا اب دو صورتیں ہوئیں ، یا تو جو پیسہ اس نے بٹ کوائین میں لگایاہے ،وہ بھی ڈوب گیا،یا اپنے ساتھ بڑی دولت لے آیا۔اس کو قمار
جوا کہتے ہیں۔”(ص:24)
ہماری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر کسی مال کو کوئی سخص اس غرض سے خریدتا ہے کہ وہ اس کی قیمت بڑھنے پر اسے فروخت کرے گا اور نفع کمائے گا اور ساتھ ہی وہ نقصان کے امکان کو بھی برداشت کرتا ہے تو اسے جوے کے بجائے بیع کہنا چاہیے ۔البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بٹ کوائین مال ہے یا نہیں؟
مال کی تعریف علامہ ابن عابدین ؒ نے فرمائی ہے:
“المراد بالمال ما یمیل الیہ الطبع و یمکن ادخارہ لوقت الحاجۃ، و المالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃ او بعضھم و التقوم یثبت بھا و باباحۃ الانتفاع بہ شرعا”۔(11)
“مال سے مراد وہ چیز ہے جس کی طرف طبیعت مائل ہو اور اس کی ضرورت کے وقت کے لیے ذخیرہ کرناممکن ہو ۔مالیت تمام یا بعض لوگوں کے مال سمجھنے سے ثابت ہوتی ہے اور تقوم اس سےاور شرعاً انتقاع کے مباح ہونے سے ثابت ہوتا ہے۔”
11: ابن عابدین :ردالمحتار ،4/501 ،ط : الثانیۃ ،ن:دار الفکر
اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مال سے مراد وہ چیز ہے جسے لوگ مال سمجھتے ہوں۔بیع کے لیے مبیع یا ثمن کا مال ہونے کے ساتھ ساتھ متقوم(قیمت رکھنے والا)ہونا بھی ضروری ہے ۔کوئی چیز اس وقت متقوم کہلاتی ہے جب اس سے نفع حاصل کرنا ممکن بھی ہو اور شرعاً جائز بھی ہو۔
ائمہ احناف کے نزدیک کسی چیز کا مال ہونا الگ شے ہے اور متقوم ہونا الگ چیز ہے ۔اگر کوئی چیز مال ہو لیکن متقوم نہ ہو تو اسے مبیع میں ثمن بنانے سے بیع منعقد تو ہو جاتی ہے لیکن فاسد ہوتی ہے اور مبیع ہونے کی صورت میں بیع ہوتی ہی نہیں ہے مالکیہ،شوافع اور حنابلہ کے نزدیک انتقاع کے قابل ہونا مال کی تعریف میں داخل ہے۔
چنانچہ علامہ زر کشیؒ فرماتے ہیں:
“المال ما کان منتفعا بہ ای مستعد الان ینتفع بہ”۔(12)
“مال وہ ہوتا ہے جس سے انتقاع کیا جائے یعنی وہ اس قابل ہو کہ اس سے انتقاع ہوسکے”۔
علامہ بہوتی ؒ فرماتےہیں :
“المال شرعاً (ما یباح نفعہ مطلقا) ای فی کل الاحوال (او) یباح (اقتناؤ بلا حاجۃ)”۔(13)
“مال شرعاً وہ ہے جس کا نفع مطلقاً مباح ہو یعنی تمام احوال میں یا اس کا رکھنا حاجت کے بغیر درست ہو”۔
12: زر کشی: المنثور فی القواعد الفقھیۃ،3/222،ط: الثانیۃ، ن: وزارۃ الاوقاف
13: بہوتی :شرح منتہی الارادات ، 2/7، ط: الاولی، ن: عالم الکتب
اصحاب الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ کہتے ہیں
“و عبر المالکیۃ و الشافعیۃ عن ھذا الشرط بلفظ: النفع او الانتقاع، ثم قالوا: ما لا نفع فیہ لیس بمال فلا یقابل بہ، ای لا تجوز المبادلۃ بہ”۔(14)
“مالکیہ اور شافعیہ نے اس شرط کو لفظ نفع یا انتقاع سے تعبیر کیا ہے۔پھر کہتے ہیں: جس چیز میں نفع نہ ہو وہ مال نہیں ہے لہذا اس کے مقابل مال نہیں دیا جا سکتا ،یعنی اس کے ذریعے لین دین جائز نہیں ہے”۔
اب اگر ہم ورچوئل کرنسیوں اور خصوصاًبٹ کوائین پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ انہیں مال سمجھتے ہیں اور ان سے انتقاع کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔لہذا یہ مال بھی ہیں اور متقوم بھی ۔ایسے کسی مال کو قیمت بڑھنے کےلیے خریدنا اور قیمت بڑ ھنے پر اس سے نفع حاصل کرنا “بیع” کے تحت آتا ہے اور اسے قمار یا جواکہنا محل نظر ہے۔البتہ اگر ان کے دشمن ہونے کی حیثیت کو دیکھا جائے تو اثمان میں نفع حاصل کرنے کے لیے تجارت کرنا بہتر نہیں ہے ۔یہ اصل مبیع کے حصول کے لیے واسطہ ہوتے ہیں اور اس قسم کی تجارت سے انہیں بطور واسطے کے استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔لیکن عدم جواز کا حکم لگانا بہر حال مشکل معلوم ہوتاہے ۔
بٹ کوائین میں اکاؤنٹ:
مفتی صاحب تحریر کرتے ہیں: “جب کہ بٹ کوائین میں کوئی بھی شخص اکاؤنٹ کھلو ا سکتاہے اور کسی طرح کا بھی ٹرانزیکشن کرسکتا ہے بغیر کسی رکاوٹ کے “۔(ص:28)
اس سےظاہر ہوتا ہے جیسے بٹ کوائین کوئی کمپنی ،ادارہ یا بینک ہے جس میں اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے اور وہ اس کرنسی پر قابض ہوتا ہے ۔اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ بٹ کوائین “آن لائن فاریکس ٹریڈنگ “جیسا کوئی سلسلہ ہے۔ہماری رائے میں اس سے بہتر ہے کہ یوں کہا جائے کہ کوئی شخص بھی بٹ کوائین کا سافٹ وئیر بلا کسی عوض کے اپنے کمپیوٹر میں انسٹال کر کے اسے استعمال کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے نہ تو کسی قسم کے اکاؤنٹ کو کھلوانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی روک ٹوک ہوتی ہے(15)۔
14: الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، 9/14، ط: الثانیۃ، ن: دار السلاسل
اوراس موضوع پر لکھی جانے والی دیگر کتب ملاحظہ فرمایئے ۔ “Mastering Bit Coin”15: تفصیل کے لیے
بٹ کوائین کے بارے میں دارالعلوم دیو بندکے فتاوی:
جناب مفتی صاحب نے آخر میں دارالعلوم دیو بند کے دو فتوے منسلک کییےہیں اور بٹ کوائین کے حکم کے بارے میں ان سے اتفاق فرمایا ہے۔ان میں عدم جواز کا قول اختیار کیا گیا ہے۔ان فتووں پر غور کرنے سے عدم جواز کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں :
1: یہ ایک فرضی چیز ہے اور اس میں کسی قسم کی مبیع پر قبضہ نہیں ہوتا ۔
2: اس میں کرنسی کی بنیادی صفات نہیں پائی جاتیں ۔
ان دونوں باتوں کے حوالے سے ہماری رائے یہ ہے کہ :
1: یہ کرنسیاں کسی رجسٹر میں نام کی تبدیلی کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ ایک کوڈ کی شکل میں باقاعدہ ایک کمپیوٹر میں منتقل ہوتی ہیں ۔اس انتقال کے ساتھ ساتھ ان کا ریکارڈ بھی تمام کمپیوٹر وں میں محفوظ ہوتا رہتاہے۔لہذا انہیں فرضی چیز کہنا محل نظر ہے۔ البتہ یہ غیر حسی ہیں یا حسی ؟اس بارے میں ہم اوپر گفتگو کر چک ہیں۔دونوں صورتوں میں (یعنی یہ حسی سمجھی جائیں یا غیر حسی )ان پر لوگوں کے تمول کی وجہ سے مال ہونے کی تعریف صادق آتی ہے۔ کسی چیز کے مال ہونے سے ان کی حیثیت پر غور کرنا چاہیے ۔
2: کسی چیز کے بیع میں مبیع یا ثمن بننے کے لیے اس میں کرنسی کی وہ صفات پائی جانی ضرور ی نہیں ہیں جو ماہرین معیشت ذکر کرتے ہیں۔ورچوئل کرنسیوں کےبارے میں مبیع یا ثمن کی فقہ میں مذکور شرائط کی روشنی میں غور کیا جانا چاہیے ۔
بٹ کوائین کے کام کرنے کے طریقہ کار کی مکمل تکنیکی تفصیل اور مائننگ کی تفصیلات کے حوالے سے بندے کی وہ تحاریر ذیل میں دیے گئے روابط سے حاصل کی جاسکتی ہیں ۔بندہ امید رکھتا ہے کہ یہ تحاریر گہرائی میں جا کر اس قسم کی اشیاء پر حکم لگانے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔
https://drive.google.com/open?id=1v1su9lBfY6DNHIlljA1yrWDSyVdCt7wFw
https://drive.google.com/open?id=1v1abbLU9I75QCkWH8DgMK4YPy4VOJVfs