ورچوئل کرنسی کے بارے میں تین سوال اہم ہیں:
1. ثمن اعتباری ہونے کے کیا شرعی تقاضے ہیں جو اس کرنسی میں نہیں پائے جاتے ہیں؟
2. اس کرنسی کا تقوم کس اساس پر ہے یعنی کیا اس کی بنیاد کسی مادی شے پر ہے یا یہ محض اعتباری چیز ہے؟
3. اس کا نگرانی کا نظام کیا ہوگا جو اس کے اعتباری ہونے کی نگرانی رکھے تاکہ ضیاع اموال الناس کا خطرہ نہ ہو؟
ان تینوں کا جواب یہ ہے کہ ثمن اعتباری کیلئے اصل چیز اعتبار ہے اس کا حسی شے ہونا نہیں. آج بھی کاغذی نوٹ اعتبارِ معتبِر (معتبِر = اسم فاعل) کی وجہ سے نوٹ ہے ورنہ اس کی مادی حیثیت و قیمت کچھ بھی نہیں ہے.
لہذا اگر اعتبارِ معتبِر کسی غیر حسی چیز کے ساتھ قائم ہو تو اس کے بھی کرنسی کہلانے میں کوئی مانع شرعی نہیں پایا جاتا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ اعتبارِ معتبِر میں معتبِر سے مراد کیا ہے? یعنی کیا شریعت نے متعین طور پر ایسی کوئی ہدایت دی ہے جس کے تحت یہ کہا جاسکے کہ اس فلان کے اعتبار کرنے سے معنوی کرنسی وجود میں آ سکتی ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ متعین طور پر ایسا اختیار کسی خاص فرد, مجموعہ افراد یا ادارے کو نہیں ہے البتہ حکمِ حاکم اور تعامل الناس یہ دونوں چیزیں تقوم پیدا کردیتی ہیں یعنی ان دونوں کا ثمن اعتباری کی تخلیق میں عموما کردار ہوتا ہے.
ورچوئل کرنسی کا آغاز تو تعامل الناس سے ہوا ہے یعنی کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرنا شروع کیا تو تعامل قائم ہوگیا. البتہ اب حکومتیں بھی اس سلسلے میں کام شروع کرنا چاہ رہی ہیں. ویسے بھی پلاسٹک منی یا کارڈ کا استعمال حسی کرنسی کے کم استعمال کی طرف پہلا قدم تھا اور اب اس طرح کی کرنسی جاری کرنے سے یہ کام اور جلدی ہوگا. کارڈ کا کام بینکوں کے ذریعے اور بالواسطہ طور پر تھا کہ وہ نقود کو رکھ کر جاری کیا جاتا ہے جبکہ یہ کرنسی براہ راست افراد کو جاری ہوگی.
3. اس کی نگرانی اور دھوکہ دہی سے بچنے کا کیا نظام ہے?
تو ایک تو یہ کہ اس میں بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جس کی وجہ سے ایک سے زائد جگہ اس کا ڈیٹا محفوظ ہوگا.
دوسرا یہ کہ اب حکومتیں اس کرنسی کی نگرانی کا نظام وضع کر رہی ہیں جو رفتہ رفتہ بہتر ہوتا جائے گا.
تیسرا یہ کہ اس کے جواز کا فتوی دیتے وقت یہ شرط بھی لگانی چاہیئے کہ جس ملک میں یہ قانونا ممنوع ہو تو وہاں اس کا لین دین ناجائز ہوگا.
یہ بات مدنظر رہے کہ یہ معاملہ ہنوز زیر تحقیق ہے البتہ بنیادی تصورات کی روشنی میں یہ جائز تصور لگتا ہے.
امید ہے کہ اس تفصیل کی روشنی میں کچھ بات واضح ہوسکے گی.
ناچیز: ارشاد احمد اعجاز