سوال:بیماری متعدی ہوتی ہے یانہیں؟ اور متعدی مرض والے کے پاس آنے سے کترانا کیسا ہے؟ ڈاکٹر احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں ، لیکن دوسری طرف تو یہ بات ذہن میں آتی ہےکہ جو ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اس بارے میں شرعی حکم تحریر فرمادیں؟
﷽
الجواب حامدا و مصلیا
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری منتقل نہیں ہوتی ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ، وَلَا صَفَرَ» ترجمہ:”آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ؛چھوت لگنا،بدشگونی لینا ،الو کا منحوس ہوناورصفر کا منحوس ہونا ان سب کی کوئی حیثیت نہیں”(سنن ابن ماجه (2/ 1171) اور بعض سے ثبوت بھی ملتا ہے، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»، ترجمہ:”حضرت جابررضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ؛بنو ثقیف کی طرف سے جو وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہواتھا، اس میں ایک مجذوم شخص بھی تھا، آپ علیہ السلام نے اس کی طرف آدمی بھیجا کہ ہم نے تم سے بیعت کر لی تم لوٹ جاؤ”(صحيح مسلم (4/ 1752) اس میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ امراض ہر حال میں متعدی ہوتے ہیں تو اس کی نفی حدیث شریف میں فرما دی کہ اپنی ذات سے مرض متعدی نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالی کا حکم نہ ہو اور مشاہدات بھی آئے دن اس کی تائید کرتے ہیں کہ مریض کے قریب بہت سے لوگ جاتے ہیں لیکن مرض کسی کو لگتا ہے اور کسی کو نہیں، زمانہ جاہلیت والا یہ عقیدہ باطل ہے، اور جن احادیث میں مریض کے پاس جانے سے پرہیز کا حکم ہے وہ احتیاط کی بنا پر اور کمزور اعتقاد والے لوگوں کے حق میں ہےکہ ممکن ہے کہ کسی مریض کے پاس جانے سے ان کو بھی وہ مرض لگ جائے اوروہ یہ سمجھے کہ اس مریض کے پاس جانے سے یہ مرض مجھے لگا ہے، حالنکہ مرض کا لگنا اللہ تعالی کے حکم کی بنا پر ہے
فتح الباري لابن حجر (10/ 161)
ثانيها حمل الخطاب بالنفي والإثبات على حالتين مختلفتين فحيث جاء لا عدوى كان المخاطب بذلك من قوي يقينه وصح توكله بحيث يستطيع أن
يدفع عن نفسه اعتقاد العدوى كما يستطيع أن يدفع التطير الذي يقع في نفس كل أحد لكن القوي اليقين لا يتأثر به وهذا مثل ما تدفع قوة الطبيعة العلة فتبطلها وعلى هذا يحمل حديث جابر في أكل المجذوم من القصعة وسائر ما ورد من جنسه وحيث جاء فر من المجذوم كان المخاطب بذلك من ضعف يقينه ولم يتمكن من تمام التوكل فلا يكون له قوة على دفع اعتقاد العدوى فأريد بذلك سد باب اعتقاد العدوى عنه بأن لا يباشر ما يكون سببا لإثباتهاــــــــــــــــــ السادس العمل بنفي العدوى أصلا ورأسا وحمل الأمر بالمجانبة على حسم المادة وسد الذريعة لئلا يحدث للمخالط شيء من ذلك فيظن أنه بسبب المخالطة فيثبت العدوى التي نفاها الشارع وإلى هذا القول ذهب أبو عبيد وتبعه جماعة فقال أبو عبيد ليس في قوله لا يورد ممرض على مصح إثبات العدوى بل لأن الصحاح لو مرضت بتقدير الله تعالى ربما وقع في نفس صاحبها أن ذلك من العدوى فيفتتن ويتشكك في ذلك فأمر باجتنابه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
احقر عمیراحمد عفی عنہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی 30 جمادی الاولی 1441
27جنوری2020