بیماری کے علاج کے لیے زکوۃ دینا۔

سوال: ایک خاتون سفید پوشی کی زندگی گزار رہی تھی ،اس کے پاس بالیاں ہیں جن کی مالیت 30 ہزار ہے اور 7 ہزار روپیہ نقد ہے ، ابھی ایکسیڈنٹ میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ،اسے آپریشن کے لیے زیادہ پیسوں کی ضرورت ہے، کیا اس خاتون کو علاج کے لیے زکوة دی جاسکتی ہے؟؟

الجواب باسم ملھم الصواب
مذکورہ خاتون کے پاس اس سونے اور نقدی کے علاوہ کوئی اور سونا ،چاندی یا پیسے اور مال تجارت نصاب کے بقدر نہیں ہے تو انہیں زکوۃ اور دیگر صدقات واجبہ دینا جائز ہے۔
نیز ! علاج کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہو تو اسے علاج کے بقدر یا اس سے زائد رقم بھی بلا کراہت دے سکتے ہیں، لیکن وہ زائد رقم نصاب کے برابر نہ ہو۔

===========
حوالہ جات :

1 ۔ ”(وکرہ إعطاء فقیر نصابا ) أو أکثر (إلا إذا کان) المدفوع إلیہ (مدیوناً، أو)کان (صاحب عیال) بحیث (لو فرقہ علیہم لایخص کلا)، أو لا یفضل بعد دینہ (نصاب) فلا یکرہ ۔
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف ،303 ، 304 / 3 ،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

2 ۔ ”لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً۔۔۔۔۔۔ هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي”.
(الفتاوی الھندیہ: 1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) ۔

واللہ اعلم بالصواب۔
9 ذوالقعدہ 1444
29 مئی 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں