سوال:میری ساس بہت زیادہ بیمار ہیں کہ وہ خود وضو کے لیے نہیں جا سکتیں، اب ان کے لیے وضویا تیمم اور نماز کا کیا طریقہ ہوگا؟ اور کیا نماز کے لیے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ کروٹ نہیں بدل سکتیں۔
الجواب باسم ملہم الصواب
آپ کے سوال میں دو چیزیں پوچھی گئی ہیں:
1.مریض کے لیے وضو اور تیمم کا حکم۔
2.نماز میں قبلہ رو ہونے کا حکم۔
دونوں کے جواب بالترتیب ملاحظہ ہوں:
1.واضح رہے کہ تیمم کرنا اس شخص کے لیے درست ہے جو پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو ، یا پانی موجود ہی نہ ہو۔
مذکورہ صورت میں اگر آپ کی ساس خود وضو کے لیے نہیں جاسکتی مگر پانی کے استعمال پر قدرت رکھتی ہیں، تو ان کے لیے وضو کرنا ضروری ہے،تیمم کرکے نماز پڑھنا جائز نہیں۔اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ اپنے پاس پانی کا اسپرے رکھ لیں اور وضو کرنے کے لیے اعضاءِ وضو پر اتنا اسپرے کریں کہ پانی کے قطرے ٹپکنے لگیں۔
اگر خود وضو نہ کرسکیں تو کسی سے وضو کرانے میں خدمت لے لیا کریں۔
اور اگر پانی کے استعمال سے بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے، تو پھر تیمم کرنے کی اجازت ہے، خود نہ کر سکیں تو کسی سے مدد لے لیں۔
2. مریضہ کی نماز کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ اگر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ اشارے سے بھی نہیں کر سکتیں،تو لیٹ کر رکوع اور سجدے کے لیے سر کو جھکا کر اشارہ سے نماز پڑھ لیا کریں،لیٹنے میں دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں:
(الف) لیٹ کر پاؤں قبلہ کی جانب کرلیں ( گھٹنے کھڑے رکھنا بہتر ہے تاکہ قبلہ کی طرف پاؤں نہ ہوں) اور سر کو کسی تکیہ پر رکھ لے۔
(ب) دائیں کروٹ پر لیٹ جائیں اور رخ قبلہ کی جانب کر لیں۔
اس صورت میں بھی اگر خود قبلہ رو ہونا ممکن نہ ہو تو کسی دوسرے سے مدد لیں اور اگر کوئی قبلہ رو کروانے والا بھی نہیں تو جس طرف رخ ہو اسی طرف نماز پڑھ لیں۔
نوٹ:بہشتی زیور میں معذور، اسی طرح مریض کے نماز پڑھنے کا طریقہ تفصیل سے موجود ہے، اگر اسے دیکھ لیا جائے تو عمل کرنے میں آسانی ہوگی۔
___________
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 102):
في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، و لايقدر على الماء تيمم، و لو قطع من المرفق غسل محل القطع
ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وإن وجد خادما کعبدہ وولدہ وأجیرہ لا یجزیہ التیمم اتفاقا کما نقلہ في المحیط ۔۔۔۔۔۔۔ ما في التجنیس : وظاہرہ أنہ لو لم یکن أجیر لکن معہ ما یستأجر بہ أجیرا لا یجزئہ التیمم قل الأجر أو کثر فإنہ قال : أو عندہ من المال مقدار ما یستأجر بہ أجیرا ۔
(۱/۴۴۵، ۴۴۶، کتاب الطہارۃ ، باب التیمم)
ما في ’’ الفتاوی الولوالجیۃ ‘‘ : المریض إذا أقعدہ المرض بحیث لا یستطیع الحرکۃ إن کان لہ خادم أو عندہ من المال مقدار ما یستأجر بہ أجیرا أو بحضرتہ من المسلمین ما لو یستعان بہ علی الوضوء أعانہ وہو بحال لو وضأہ لا یدخلہ الضرر لا یجوز لہ التیمم لأنہ قادر علی التوضي ۔ (۱/۶۶، کتاب الطہارۃ ، الفصل السابع في التیمم)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 147):
“(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، و هو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لايبيح التيمم، و هو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، و هو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة و دفع الحرج، و هو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد و الامتداد و لا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لايجد من يوضئه و لايقدر بنفسه اتفاقًا
(ھندیه، الباب الثالث، في شروط الصلوۃ، قدیم ۱/ ۶۳، جدید ۱/ ۱۲۱)
مریض صاحب فراش لایمکنه أن یحول وجہہ، ولیس بحضرتہ أحد یوجہہ یجزیہ صلاتہ إلی حیث ما شاء، کذا في الخلاصۃ، وکذا إذا کان یجد من یحولہ، ولکن یضرہ التحویل، ہکذا في الظہیریۃ۔
(درمختار مع الشامي: ۲/ ۵۶۹، وبعدہ، ط: زکریا، باب صلاة المریض)
وإن تعذر القعود ولو حکما أومأ مستلقیا علی ظہرہ ورجلاہ نحو القبلة غیر أنہ ینصب رکبتیہ لکراہة مد الرجل إلی القبلة ویرفع رأسہ یسیرا لیصیر وجہہ إلیہا ․․․
واللہ تعالیٰ اعلم