فتویٰ نمبر:3097
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
ہمارا ایک ادارہ ہےاس میں بہت سے لوگ نوکری کرتے ہیں اور پھر بغیر بتائے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں
تو ان کی آ خر کی کچھ سیلری ہمارے پاس رہ جاتی ہے۔ تو کیا ان کو بلا کر دینا ہماری ذمے داری ہے؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
ملازم نے جتنے عرصے کی ذمہ داری ادا کی ہے وہ اس کارگردگی کے عوض(تنخواہ)کا حق دار ہوگا، اسلیے ان کو بلاکر تنخواہ دینا لازم و ضروری ہے،
▪عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ»
(ابن ماجہ 2443 وصححه الالباني)۔
▪عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” قَالَ اللَّهُ: ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ ” ( صحیح البخاری، کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2227)
▪ قال فى الفتح :وعن ابى يوسف رحمه الله تعالى يجوز التعزيز للسلطان بأخذ المال ،وعندهما،وباقى الائمة لا يجوز ،ومثله فى المعراج،وظاهره أن ذلك روايةعن ابى يوسف قال فى الشرنبلالية:ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ المال للناس فيما يأكلون ،اھ ومثله فى شرح الوهبانية عن أبى وهبان . وأفاد فى البزازية أن معنى التعزيز بأخذ المال على القول به:امساك شئ من ماله عنده مدة لينزجر ،ثم يعيده الحاكم إليه،لا أن يأخذه الحاكم بنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة؛ إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعى.(رد المحتار ٢/٢٧٥)
▪”الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان في مدۃ الإجارۃ حاضرا للعمل۔” (شرح المجلۃ، کتاب الإجارۃ، اتحاد بک ڈپو دیوبند ۶/ ۲۳۹، رقم: ۴۲۵))
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: ١٩ جمادی الاولی ١٤٤٠
عیسوی تاریخ: ٢٥ جنوری ٢٠١٩
تصحیح وتصویب: حضرت مفتی انس عبدالرحیم۔
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: