مفتی انس عبدالرحیم
یوں تو دنیا میں متعدد چیزیں ہیں جو قدیم ہیں یا پھر قدیم چیزوں کی باقیات اور بچے کھچے آثار ہیں۔قبل از تاریخ کی اقوام اور ان کی تہذیبیں ،قدیم طرز تعمیر کے شاہکار ، قدیم عقائد ونظریات اور قدیم دنیا کے عجیب الخلقت حیوانات کی باقیات ، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو یا انتہائی قدیم ہیں یا ان کی باقیات شمار کی جاتی ہیں ۔ان میں کی قدامت کا ابھی تک ماہرین کو علم نہیں ہوسکا۔
لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جو ان سب سے زیادہ قدیم ہے۔حضرت انسان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔
زمین پر بسنے والی پہلی ذی شعور مخلوق جنات تھی جو انسان سے دو ہزار سال قبل بسائی گئی۔ باوا آدم کی تخؒیق سے پہلے دنیا پر جنات کی آبادی تھی ۔یوں “جنات ” حضرت انسان سے بھی پرانی مخلوق ہے۔لیکن بیت اللہ اور اس کے اردگرد زمین ان سب چیزوں سے زیادہ قدیم تاریخ رکھتی ہے ۔
دنیا کے نقشے پر آج جہاں ” بیت اللہ” قائم ہے ہزاروں سال بیتے جب اسی جگی کو پھیلا کر یہ عالم رنگ وبو وجود پذیر ہوا۔یہ جگہ دنیا ہستی کی “ابتداء ” ہے اور عالم فانی کی “انتہا بھی۔زمین کی ابتدا جیسے اس جگہ سے ہوئی اس کی اور اس پر بسنے والی مخلوقات کی بقا اور وجود بھی اسی “بیت اللہ ” سے وابستہ ہے۔”بیت اللہ شریف ” دنیا کی بقا اور یہاں رہنے والی مخلوقات کی حیات کی “علامت “ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :یقیناً وہ عمارت جو اللہ کی عبادت کے لیے انسانوں کے واسطے تعمیر کی گئی وہ عمارت ہے جو مکہ شریف میں ہے (یعنی بیت اللہ )۔ (آل عمران :107)
“بیت اللہ ” کی تعمیر وتجدید اور تزئین وآرائش مختلف ادوار میں کی جاتی رہی ہے۔
1۔۔۔تخلیق عالم سے دو ہزار سال پہلے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے امر کن سے اسے پیدا کیا۔ (وھذا قول ابن عمر ومجاہد وقتادۃ والسدی )
2۔تخلیق آدم سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے اس کی تعمیر کی ۔ (رواہ الخازن )
3۔حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر آنے کے بعد بیت اللہ کو پانچ پہاڑوں ،لبنان ،سین ا،جودی اور حرا کے پتھروں سے بنایا۔
4۔حضرت شیث بن آدم علیہم السلام نے مٹی اور پتھروں سے اس کی تعمیر کی۔
5۔طوفان نوح میں غرقاب ہونے یا آسمان پر اٹھالیے جانے کے ایک مدت بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند صالح اسماعیل علیہ السلام کی معاونت سے دوبارہ اس کی تعمیر کی۔اس کی تعمیر کا حکم دینے والے خود اللہ جل شانہ تھے۔اور انجینئر جبرئیل علیہ السلام تھے۔قرآن کی سورۃ البقرۃ میں اس کی تعمیر کا ذکر ہے۔ اس تعمیر اور بعثت نبوی میں تین ہزار سال کا فاصلہ ہے ۔
6۔ اس کے بعد قوم عمالقہ نے اس کی تعمیر کی۔
7۔پھر حضور ﷺ کے پانچویں پشت کے دادا ” زید قضی ” نے اس کی تعمیر کی۔
8۔اس کے بعد قریش مکہ نے کی۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 25 یا 35 سال تھی۔
9۔ یزید کی امارت میں “حصین بن نمیر کندی ” نے مکہ پر منجنیقوں سے آتشیں گولے پھینکے ،جس کی وجہ سے بیت اللہ کو کافی نقصان ہوا۔ یزید اس واقعے کے اگلے ماہ فوت ہوگیا۔ اس کی روانگی کے بعد ” حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ” نے اسی سن یعنی 64ھ میں بیت اللہ کو از سر نو تعمیر کی۔تعمیر قریش میں حطیم کو چار دیواری میں لانا رہ گیا تھا۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حطیم کو بیت اللہ کے اندر داخل کیا جو کہ منشاء نبوی کے عین مطابق تھا۔
10۔حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ المنکا شہادت کے بعد حجاج بن یوسف کے کہنے پر عبدالملک بن مروان نے 73ھ میں دوبارہ قریش کے طرز تعمیر پر کردیا۔
11۔1039ھ تک حجاج کی تعمیر چلی آتی رہی ۔اس سے قبل 960ھ میں سلطان سلیمان نے چھت کی مرمت کروائی اور 1021ھ میں سلطان احمد نے چھت ،میزاب رحمت اور دیوار کعبہ کی مرمت کروائی اور 1021ھ میں سلطان احؐد نے چھت ،میزاب رحمت اور دیوار کعبہ کی تعمیر کروائی ۔ان کے علاوہ ولید بن عبدالملک ،متوکل باللہ نے بھی تزئین اور مرمت کرئی ہے ۔ 542ھاور 825ھ میں بھی ترمیم قتزئین کا ذکر ملتا ہے ،یہ تمام ترمیمات محض ترمیم اور تزئین ہی کی حدمیں آتی ہے۔
1039ھ میں سسلطان مراد خان کے دور میں ایسی طوفانی بارشیں اور عظم سیلاب آیا کہ قفل کعبہ سے بھی دوہاتھ اوپر تک پانی بھر آیا اور دو دن کے بعد اچانک اکثر حصہ گرگی ا۔سلطان مراد نے 1040ھ میں تجدید تعمیر کا شرف حاصل کیا۔
اس کے بعد سلطان عبدالحمید ثانی نے 1299ھ میں اندرون کعبہ کی اصلاح وترمیم کی اور موجودہ دور میں شاہ فہد بن عبدالعزیز نے بھی بیت اللہ،مسجد حرام اور مسجد نبوی کی بڑی خدمت کی ہے۔ ( تفصیل کے لیے اوجز المسالک :ج 7/119 تا 147 طبع دارالکتب العلمیہ بیروت )
ہر مسلمان اس بلند پایہ یادگار ،عظیم تر معبد اور اپنی عزت وحکومت کی پائیدار نشانی پر نازاں ہے۔یہ اسلام کی عظمت اور برتری کی دلیل ہے کہ اس کا قبلہ وکعبہ ایک قدیم ترین اور منفرد تاریخ رکھنے والا معبد ہے۔ایسا معبد جس کا وجود دنیا کی بقا کی شناخت اور انہدام دنیا کے فنا کی علامت ہے۔مسلمانوں کی تاریخ کا یہ ایک نرالا باب ہے۔۔۔۔۔جو اسلام کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔۔ کہ یہ اس وقت سے،جب اسلام کی اس خطہ میں آبیاری ہوئی تھی آج تک اہل اسلام کی وراثت رہی ہے ۔وقت اک کوئی طاغوت ان سے یہ “وراثت ” چھین نہیں سکا اور نہ چھین سکتا ہے ۔یہ اس وقت ہی ہاتھ آسکتا ہے جب روئےز مین پر “اللہ اور “اسلام”کا نام لیوا باقی نہ رہے اور یہ وہ وقت ہوگا جب سارے عالم پر کافروں کی حکومت ہوگی اور خود رب کعبہ بھی دنیا کی فنا کی فیصلہ کرچکا ہوگا ۔