السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
سوال: مسئلہ یہ ہے کہ 10 سال پہلے میری امی کے بھائیوں نے نانا کی فیکٹری کی ویلیو نکلوائی اور انہوں نے اپنی بہنوں کا حصہ اس وقت کی ویلیو کے مطابق مقرر کرلیا جس پر سب راضی ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ کو اگلے سال تک آپ کا حصہ دے دیں گے۔ انہوں نے اگلے سال پیسے نہیں دیے۔ اس بات کو دس سال گزر چکے ہیں اور اب وہ بھائی آپس میں فیکٹری بیچ کر آج کی قیمت کے حساب سے اپنا حصہ بانٹ رہے ہیں جو کہ بہنوں کے 10 سالہ متفقہ حصے سے چار گنا بڑھ چکا ہے۔ جب کہ بہنوں کو وہ دس سال پہلے کا حصہ ہی دے رہے ہیں اور اوپر تھوڑی سی اور زیادہ رقم دے رہے ہیں تو مجھے بتائیں کہ کیا بہنوں کے ساتھ یہ معاملہ کرنا صحیح ہے۔ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے فتویٰ بھی لے لیا کہ بہنوں کو اتنا ہی ملنا چاہیے کیونکہ وہ اس قیمت پر راضی ہو گئی تھیں اور ہاں اگر بھائی خوشی سے تھوڑا اور زیادہ دینا چاہیں تو دے دو۔ لیکن وہ خود اپنا حصہ آج کی فیکٹری کی قیمت کے حساب سے اٹھا رہے ہیں تو مجھے بتائیں اس میں کیا ہونا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
اگر سوال میں درج معلومات درست ہے اور بہنوں نے اگر رضامندی کا اظہار کردیا تھا تو بھائیوں پر وہی حصہ دینا لازم ہے جو 10 سال پہلے طے کیا گیا تھا، تاہم بھائیوں نے جو10سال تک حق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے، اس کے سبب وہ سب گناہگار ہوئے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ بہنوں کو کسی بھی طریقے سے راضی کریں اور ان کے حق کی تلافی کریں۔
******************************
حوالہ جات:
1..’’يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ. (النساء، 4/ 11)
ترجمہ: اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
2.. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، (سنن ابن ماجه: رقم الحدیث:2703)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔
3..الْأَمْوَالُ الْمُشْتَرَكَةِ فِي شَرِكَةِ الْمِلْكِ تَقْسِيمُ حَاصِلَاتِهَا بَيْنَ أَصْحَابِهِمْ عَلَى قَدْرِ حِصَصِهِمْ. (جمعية المجلة، مجلة الأحكام العدلية: 206،)
4..” الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط”. (رد المحتار مع الدر المختار:7/ 505)
5..”ولا سبيل إلى التصرف في الملك المشترك والحق المشترك إلا برضا الشركاء.” (بدائع الصنائع:6/ 190)
6.. اگر سوال میں درج شدہ ۔۔۔۔ کہ ابھی تک جائیداد وغیرہ کی تقسیم نہیں ہوئی ہے اور نہ حصہ متعین کرکے ہر ایک کا حصہ ادا کیا گیا، یا کچھ ادا کر کے دوسروں سے سے ان کی رضامندی سے بعد میں ادائیگی کے لئے مدت لی گئی،اور اب اس وقت تقسیم کرنا چاہتے ہو تو جائیداد کی تقسیم حالیہ قیمت کے اعتبار سے ہوگی۔ (فتاوی رحیمیہ : 891/3)
واللہ سبحانہ اعلم
15 رجب 1444ھ
5 فروری، 2022ء
Load/Hide Comments