بطور علاج شراب کا استعمال

سوال:السلام علیکم!

مجھے سانس کا مسئلہ ہے اور بہت علاج کیا مگر صحیح نہیں ہو رہا اور اب ڈاکٹر نے شراب کے ایک چمچ کا بولا ہے کہ وہ پی لے، تو کیا اسے ہم دواء کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں رہنمائی فرما دیں۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام!

واضح رہے کہ کسی بھی حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے، البتہ اگر بیماری مہلک یا ناقابل برداشت ہو اور مسلمان، ماہر، دیندار ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور حرام چیز سے شفا ملنے کا یقین یا غالب گمان ہو اور کوئی متبادل موجود نہ ہو تو مجبوراً بطور علاج بقدر ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے ورنہ نہیں۔

صورت مسؤلہ میں اگر شراب کے بغیر علاج ممکن نہیں تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ شراب سے علاج کرنے کی گنجائش ہے:

1۔ مریض ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہو یا اس کی جان چلے جانے کا خوف ہو، اگر جان جانے کا خطرہ نہ ہو یا معمولی بیماری، جیسے: نزلہ، زکام وغیرہ ہو تو اس صورت میں شراب استعمال کرنے کی قطعی اجازت نہیں۔

2۔ دوسری کوئی حلال دواء موجود نہ ہو یا اس سے فائدہ نہ ہوتا ہو۔

3۔ کوئی ماہر دیندار ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ شراب کے استعمال کے علاوہ کوئی اور طریقہ علاج ممکن نہیں ہے ۔

4۔ شراب کے استعمال سے اس مرض کے صحیح ہونے کا یقین ہو یا ظن غالب ہو۔

5۔ اس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔

6۔ ضرورت سے زائد استعمال نہ کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ “فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ لا فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ”.

(سورة المائدة: 3)

ترجمہ:

“پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک ﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے”۔

2۔ ما في رد المحتار:

(والحقنة) للتداوي ولو للرجل بطاهر لا بنجس، وکذا کل تداو لا یجوز إلا بطاهر، وجوزہ في “النهایة” بمحرم إذا أخبرہ طبیب مسلم أن فیه شفاء، ولم یجد مباحاً یقوم مقامه، قلت: وفي “البزازیة”: ومعنی قوله علیه الصلاۃ والسلام: “إن اللّٰه لم یجعل شفاءکم فیما حرّم علیکم”.

(کتاب الحظر والإباحة: 9/474)

3۔ في المحیط البرهاني:

“فإن الاستسقاء بالمحرم إنما لا یجوز إلا لم یعلم أن فیه شفاء”.

(کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي والمعالجات: 6/116)

4۔ في الموسوعة الفقهیة:

“اتفق الفقهاء علی عدم جواز التداوي بالمحرم والنجس، من حیث الجملة، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: “إن اللّٰه أنزل الداء والدواء، وجعل لکل داء دواء، فتداووا، ولا تتداووا بالحرام”.

وعن عمر رضي اللّٰه عنه، أنه کتب إلی خالد بن الولید رضي اللّٰه عنه: إنه بلغني انك تدلك بالخمر، واللّٰه قد حرّم ظاهر الخمر وباطنها، وقد حرّم مسّ الخمر کما حرّم شربها ، فلا تمسّوها أجسادکم فإنها نجس”.

(التداوي، التطبیب: 119،11/118)

5۔ في الفتاوی الهندیة: وتکرہ ألبان الأتان للمریض وغیرہ، وکذلك لحومها ، وکذلک التداوي بکل حرام. کذا في فتاوی قاضي خان”.

(کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات: 5/355)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

5 ربیع الاول 1443ھ

12 اکتوبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں