فتویٰ نمبر:918
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!برائے مہربانی بینک سے قرض لینے کا شرعی حکم دلائل سے واضح کر دیں،تفصیلی حکم مطلوب ہے۔
والسلام
الجواب حامدۃو مصلية
ایک طرف سودی بینک کا معاملہ ہے جو سود پر قرض دیتا ہے ۔جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن کو بینک قرضہ دیتا ہے ان سے اس “اصلی مال “جو قرضے میں دیا جا رہا ہے اس پر مزید معین شرح فیصد پرسود(فکس پرافٹ)لیتا ہے۔چونکہ سود کی حرمت قطعی ہے،لہٰذا بینک سےسودی قرض لینا (بجز اضطراری کیفیت کے )ہرگز جائز نہیں، سخت حرام ہے ۔ اضطراری کیفیت سے مراد یہ کہ اگر حالات ایسے ہو جائیں کہ سودی بینک سے قرضہ نہ لیا گیا تو اپنی یا اپنے اہل و عیال کے جانی یا مالی بڑے نقصان میں مبتلا ہونے یا شدید مشقت میں پڑنے کا اندیشہ ہو اور کہیں اور سے غیر سودی قرضہ بھی نہ ملتا ہو تو ایسی صورت میں بینک سے قرضہ لینے کی گنجائش ہے،تاہم ساتھ ساتھ جلد از جلد اس سے چھٹکارے کی کوشش کرتا رہے اور اس پر توبہ و استغفار کرتا رہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے خنزیر کی حرمت قطعی ہے لیکن اگر کسی کی حالت ایسی ہو کہ بجز اس کے کچھ اور کھانے کے لیے نہ ہو اور اگر وہ یہ نہیں کھائے گا تو اس کی موت واقع ہونے کا قوی امکان ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کے لیے بقدر ضرورت ا س حرام سے کھانے کی گنجائش ہے۔
تاہم اگر کوئی سودی بینک بلا سود کے قرضہ دے تو لینا جائز ہے.
جبکہ دوسری طرف اسلامی بینک ہے،چونکہ اسلامک بینک مضاربت،مشارکت وغیرہ کےاصولوں کی بنیاد پر معاملات کرتا ہے۔ سودی قرضہ نہیں دیتا اس لیے اسلامی بینک سے ایسا معاملہ کرنا جائز ہے۔
“اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا”
[البقرۃ، جزء آیت: ۲۷۵]
“عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔”
(صحیح مسلم ۲؍۷۲ رقم: ۱۵۹۸، سنن الترمذي ۱؍۲۲۹ رقم: ۱۲۰۶، مشکاۃ المصابیح، البیوع / باب الربا ۲۴۴، مرقاۃ المفاتیح ۶؍۴۳ رقم: ۲۸۰۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
“ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح”
(الاشباہ والنظائر ص۱۱۵،مرتب)
“وقال الحموي: ہٰہنا خمسۃ مراتب :ضرورۃ وحاجۃ ومنفعۃ وزینۃ وفضول، فالضرورۃ بلوغہ حداً إن لم یتناول الممنوع ہلک أو قارب، وہٰذا یبیح تناول الحرام والحاجۃ کالجائع لو لم یجد ما یأکلہ لم یہلک، غیر أنہ یکون في جہد ومشقۃ۔ “
(حموي علی الأشباہ ۱؍۱۴۰)
“الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ عامۃً أو خاصۃً۔”
(شرح المجلۃ لسلیم رستم باز ۳۳ رقم المادۃ: ۳۳، الأشباہ والنظائر / الفن الأول، القاعدۃ الخامسۃ ۹۳)
“الضرورات تبیح المحظورات۔”
(شرح المجلۃ ۲۹ رقم المادۃ: ۲۱، الأشباہ والنظائر / القاعدۃ الخامسۃ ۸۷ مکتبۃ دار العلوم دیوبند، قواعد الفقہ ۸۹ رقم: ۱۷۰ دار الکتاب دیوبند)
و اللہ سبحانہ اعلم
بقلم : بنت ممتاز عفی عنھا
قمری تاریخ:2 صفر،1440 ھ
عیسوی تاریخ:11 اکتوبر،2018
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
HTTPS://M.FACEBOOK.COM/SUFFAH1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: