﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۶۲﴾
سوال:- مجھے یہ پوچھنا ہے کہ بینک ملازمین کو وین کی سہولت مہیا کرنا جائز ہے؟
جواب : بینک ملازموں کو وین کی سہولت فراہم کر نے سے اگر آپ کی مراد ان ملازمین کو بینک پہنچا کر بینک سے ان کی تنخواہ لینا ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ غیر سودی بینک کے ساتھ یہ معاملہ کرنا تو جائز ہے۔البتہ سودی (کنونشنل ) بینکوں کے ملازمین میں چونکہ تمام ملازمین کی ملازمت ناجائز نہیں ہوتی اور جن کی ناجائز ہوتی ہے وہ بھی خود ان کا عمل ہے ۔اس لیے ڈرائیور اگران کے ناجائز عمل میں تعاون کی نیت نہ کرے تو اس کے لیے ملازمین کو سودی بینک پہنچانا جائز ہےاور چونکہ سودی بینک میں رکھی ہوئی ساری رقوم ناجائز نہیں ہوتی اس لیے بینک سے اس کی تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔تاہم سودی بینکوں کو یہ سہولت فراہم کرنا کراہت سے خالی نہیں۔
(فقہ البیوع : ج۲ص۱۶۴،۱۶۵)
فان کانت الوظیفة تتضمن مباشرة العملیات الربویة او العملیات المحرمة الاخری فقبول ھذہ الوظیفةحرام مثل التعاقد بالربو اخذا او عطاء۔ ۔ ۔ ومن کان موظفا فی البنک بھذا الشکل فان راتبہ الذی یاخذ من البنک کلہ من الاکساب المحرمة، فان لم یکن لہ مال غیرہ۔ ۔ ۔ فلا یجوز اخذ شیء منہ ھبة او بیعا او شراء او ارثا۔۔۔۔اما ان کان مثل ھذا الموظف لہ اکساب حلال من غیر طریق البنک ۔ ۔ ۔ لان مالہ مخلوط من الحلال والحرام، فتجری علیہ احکامہ فیحل لہ الانتفاع من اموالہ بقدر ما فیھا من الحلال، وکذلک یجوز للآخرین ان یتعاملوا معہ بذلک القدر۔ ۔۔۔ اما اذا کانت الوظیفة لیس لھا علاقة مباشرة بالعملیات الربویة، مثل وظیفة الحارس او سائق السیارة۔ ۔ ۔۔۔وان کان الاجتناب عنھا اولی ولا یحکم فی راتبہ بالحرمۃ ۔ ۔ ۔ ویجوز التعامل مع مثل ھولاء الموظفین ھبة او بیعا او شراء”۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقط والله تعالیٰ اعلم
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
الجواب صحیح
مفتی انس عفی اللہ عنہ
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
الجواب الصحیح
مفتی طلحہ ہاشم صاحب
رفیق دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی