دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:105
السلام علیکم
مولانا صاحب میں نیشنل بینک آف پاکستان میں 2008 میں ایک نوجوان بھرتی پروگرام کے تحت ملازم ہوا۔ اس وقت سے اب تک میں بینک کے انتظامی امور والے ڈیپاڑٹمنٹ میں بطور آئی ٹی افسر کام کررہا ہوں۔
میرے دائرہ کار درج ذیل ہیں:
۔ بینک کے مواصلاتی /رابطہ نظام کی دیکھ بھال
۔ بینک کے (اے ٹی ایم) مشینوں کی دیکھ بھال
۔ کمپیوٹرسسٹم کی دیکھ بھال اور مرمت
۔ اعلیٰ افسران کو آئی ٹی کے بارے میں مشورے دینا
میرا کام بینک کے کمپیوٹر نظام اور رابطہ سسٹم کو دیکھنا ہے بینک کے اور کسی کام کی نہ تو مجھے سمجھ ہے اور نہ مجھ سے وہ کام لیا جاتا ہے ۔ میرا صارفین اور کھاتہ داروں کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں۔
میرے ذہن میں اور لوگوں کی باتوں سے کئی سوال اٹھتے ہیں مجھے ان کی بات میں مہربانی کر کے دینی اور شرعی حیثیت بتائیں۔
1 ۔ کیا میری نوکری شرعی اعتبار سے جائز ہے؟
2 ۔ اگر نہیں ہے تو کیا مجھے اپنے لیےکوئی دوسرا کام دیکھے بغیر اس کو چھوڑ دینا چاہئے؟
3۔ میرے لیےآپ کیا تجویز کرتے ہیں۔؟
4 ۔ قربانی میرے ساتھ لوگ کرنے میں کتراتے ہیں اس بارے میں کیا کروں۔؟
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الجواب حامدا ومصلیا
(۱۔۲۔۳)آپ نے سوال میں اپنے ملازمت کی جو تفصیل ذکر کی ہے اس میں ذکر کردہ کام جائز ہیں اور مذکورہ بینک جو سودی معاملات کررہا ہے اس میں آپ کا براہ راست تعاون شامل نہیں ہے لہذا آپ کو مذکورہ ملازمت کی گنجا ئش ہے اور بینک کے مخلوط مال سے اس ملازمت کی تنخواہ لینا بھی شرعا جائز ہے البتہ آپ سودی بینک کے علاوہ کسی دوسرے ادارے میں ملازمت کرلیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔
(۴)۔۔۔ اگر آپ اپنی اس جائز ملازمت کی تنخواہ سے قربانی میں حصہ لیتے ہیں تو دیگر لوگوں کے لیےآپ کو قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرنا جائز ہے۔
والله تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/551691651866751/