بینک میں کنسلٹنٹ کی ملازمت کا حکم

فتویٰ نمبر:4069

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

محترم جناب مفتیان کرام!

شرعی اور غیر شرعی بینک میں consultent کی ملازمت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

کسی بھی معاوضے کے جائز و ناجائز ہونے کا مدار کسب و عمل کے جائز و ناجائز ہونے پر ہے۔ لہذا غیر سودی بینک جو مستند علمائے کرام کی زیر نگرانی ہوں، میں ملازمت کرنا بلا شبہ جائز ہے۔

البتہ جو سودی بینک ہیں ان میں ایسی ملازمت کرنا جس کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے ہو جیسے مینیجر کیشئر وغیرہ کی ملازمت تو یہ ملازمت بالکل حرام ہے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے۔

(مستفاد از: آپ کے مسائل اور ان کا حل/ فتاوی حقانیہ)

وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (المائدۃ:۲)

گناہ ظلم و ژیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو

عن جابر رضي اﷲ عنہ قال: لعن رسولﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آکل الربو ومؤکله، وکاتبه، وشاہدیه، وقال: هم سواء، وفي التکملة: لأن کتابۃ الربا إعانۃ علیہ، ومن هنا ظهر أن التوظف في البنوك الربویة لا یجوز إلی قولہ کذلك حرام لوجهین الأول إعانۃ علی المعصیۃ، والثاني أخذ الأجرۃ من المال الحرام۔ (تکملة فتح الملهم، کتاب المساقاۃ والمزارعة، باب لعن آکل الربو وموکله، ۱/ ٤۱۹)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ١٠ رجب ١٤٤٠

عیسوی تاریخ:١٨ مارچ ٢٠١٩

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں