بینک کی ملازمت کاحکم

سوال: بینک کے ملازم کو جب معلوم ہو کہ یہ آمدن جائز نہیں مگر فوری طور پر اس کے لئے نوکری چھوڑنا بھی ممکن نہ ہو تو اس کے لئے شرعی حکم کیا ہے؟

الجواب حامدا و مصلیا

سودی بینک کی وہ  ملازمت  جائز نہیں  جس کا تعلق براہ راست سودی معاملات سے ہو ، البتہ جن میں براہ راست سودی معاملات کا تعلق نہ ہو جیسے: ( گارڈ، چپڑاسی ، ڈرائیور،الیکٹریشن وغیرہ) اور  غیر سودی بینک کی تمام ملازمتیں  جائز ہیں ،  اگر سودی بینک میں ملازم ہے اور سودی معاملات سے براہ راست تعلق ہےتو  اس ملازمت کو فوری چھوڑنا  ضروری ہے ، البتہ اگر ملازمت چھوڑنے سے  نا قابل برداشت  تنگی کا اندیشہ ہو تو اس ملازمت کو حرام سمجھتے ہوئے دوسری ملازمت اس طرح تلاش کرے  جیسے  ایک بے روزگار آدمی تلاش کرتا ہے، خواہ تنخواہ کچھ کم ہی کیوں نہ ہو، جب وہ مل جائے تو بینک کی ملازمت چھوڑدے اور ساتھ توبہ و استغفار بھی کرتا رہےاور بینک ملازمت کے دوران لی گئی تمام تنخواہیں آہستہ آہستہ صدقہ کرتا رہے۔

کما فی الصحیح المسلم رقم الحدیث: ۳۹۷۲

لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال ھم سواء۔

و فی تکملة فتح الملهم ج: ۱ ص: ۶۱۹

(قولہ و کتبہ) لان کتابۃ الربا اعانۃ علیہ ومن ھنا ظھر ان التوظف فی البنوک الربویۃ لا یجوز فان کان عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا کالکتابۃ والحساب فذلک حرام لوجھین الاول اعانۃ علی المعصیۃ، والثانی اخذ الاجرۃ من المال الحرام۔

فتاوی عثمانی ج: 3 ص: 398

“اگر موجودہ ملازمت  ترک کرنے سے ناقابل  برداشت  تنگی کا اندیشہ ہے ہو تو اس ملازمت کو حرام سمجھتے ہوئے دوسری ملازمت اس طرح  تلاش کرے جیسے ایک بےروزگار آدمی تلاش کرتا ہے،

خواہ  تنخواہ  کچھ کم ہی کیوں نہ ہو۔”

واللہ اعلم بالصواب

احقر عمیر احمدعفی عنہ

نور محمد ریسرچ سینٹردھوراجی کراچی

۲۶ جمادی الاولی 1441

22 جنوری 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں