سوال:کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کالے رنگ کا خضاب استعمال کرنے کی اجازت کسی عمر کے ساتھ خاص ہےیا عمومی اجازت ہے؟
جواب: بزرگ عمرکے افراد کے لیے بالوں میں کالے رنگ کا خضاب لگانا سخت ناپسندیدہ عمل ہے احادیث میں اس پر شدید وعید وارد ہوئی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا :آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے جیسے کبوتر کا سینہ،ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔
(ابو داود:ج۲ص۲۲۶)
فقہائے کرام نےصرف دو قسم کے لوگوں کے لیے بڑی عمر میں بھی کالاخضاب لگانے کی اجازت دی ہے
- مجاہدین کوبڑی عمرمیں کالا خضاب لگانے کی اجازت دی ہے تاکہ دشمنوں پر ان کارعب قائم رہ سکے۔
- بڑی عمر کی عورت اپنے شوہر کے لیے زینت کے طورپر کالاخضاب لگائے تو اس کی اجازت دی ہے۔
رہا جوانی میں بال سفید ہوجانے کی وجہ سے سیاہ خضاب لگانا تو بعض حضرات احادیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئےاسے بھی منع فرماتے ہیں۔
(فتاوی رحیمیہ:ج۱۰ص۱۱۷)
مگر بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ جوانی میں بالوں کا سیاہ ہو جانا عیب ہے اور عیب دور کرنا مذکورہ ممانعت میں داخل نہیں اس لیے جوانی میں بال سفیدہوجائیں توکالاخضاب لگاسکتے ہیں۔
سیاہ خضاب کی ممانعت کی ایک وجہ دھوکہ دہی ہے کہ عمر زیادہ ہوگئی ، بال سفید ہوگئے لیکن سیاہ خضاب لگا کر لوگوں کو دھوکہ دیاجا رہا ہے کہ ابھی بھی میں جوان اور کم عمرہوں جبکہ جوانی میں بال سفید ہونے کی وجہ سے سیاہ خضاب لگانا دھوکہ دینا نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے اس لیے جوان کےلیے کالاخضاب لگاناجائز ہے اور یہی صحیح موقف ہے۔ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ بھی سیاہ خضاب استعمال فرماتے تھےجس کو علماء نے جوانی یا جہادپرمحمول کیا ہے۔
اب جوانی کا اطلاق کتنی عمر پر ہوتا ہے؟ اس میں اہل علم کااختلاف رائے نظر آتا ہے:بعض اہل علم نے یوں فتوی دیا ہے کہ جوانی کی عمر میں کالا خضاب لگاسکتے ہیں، عمر کی کوئی تحدید نہیں کی جبکہ بعض نے چالیس سال کی تحدید کی ہے کہ چالیس سال تک لگاسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں ۔
یہ ساری بحث خالص سیاہ خضاب کے حوالے سے ہے ، سیاہ کے علاوہ دوسرے کسی بھی رنگ کا خضاب لگانا،چاہےعمر کے کسی بھی حصے میں ہو، درست ہے۔اس لیےبہتریہی ہے کہ جوانی کی عمر میں بال سفید ہوجائیں تب بھی سیاہ خضاب کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب لگایاجائے،مثلا: سرخ،زرد،سرخی مائل سیاہ یا ڈارک براؤن خضاب استعمال کیاجائےجس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم