سوال:ایک عورت کا شوہر پونے دو سال کے لیے ملک سے باہر گیا پیچھے سے عورت کا تعلق ہوگیا اور زنا تک معاملہ پہنچ گیا شوہر واپس آیا جب اس کو معاملہ کا پتہ چلا اب وہ کہتا ہے کہ میں اس کو چھوڑ دوں جب کہ عورت توبہ کرچکی ہے شرعی پردہ بھی شروع کردیا اور شرمندہ ہے خوب معافی مانگ رہی ہے کہ مجھے چھوڑو نہیں لیکن شوہر کا بھروسہ اٹھ گیا عورت کا پیچھے کوئی سرپرست بھی نہیں ماں باپ بھائی کوئی نہیں ہے اور دو بچے ہیں چھوٹے چھوٹے اور نندوئی ہی کے ساتھ معاملہ کیا ہے اور کہتی ہے کہ اس نے بلیک میل کیاکہ ساتھ دو ورنہ تمہارے شوہر کو بتادوں گا
اب ایسی سورت میں کیا کرنا چاہیے؟
جو لوگ درمیان میں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ معاملہ سنبھل جائے
لیکن مرد ماننے کو تیار نہیں
شرعی حکم کیا ہے ایسی عورت کو رکھناچاہیے یا چھوڑ دیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
انسان خطا کا پتلا ہے. جانے انجانے میں بے شمار غلطیاں کر بیٹھتا ہے لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں”
اگر بیوی کو اپنی غلطی کا احساس ہے جس پر وہ سچے دل سے نادم ہو کر توبہ کر چکی ہے تو خاوند کو چاہیے اسے معاف کردے یہ سوچ کر کہ اللہ رب العزت بھی ہماری پکڑ پر قدرت رکھنے کے باوجود دن بھر میں ہماری کتنی خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں۔
لیکن اگر شوہر کسی طور پر بھی اس رشتے کو قائم رکھنے
پر راضی نہیں تو احسن طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایسے پاکی کے زمانے میں ایک طلاق دے جس میں بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور عدت میں قولا یا فعلا رجوع نہ کرے۔ عدت ختم ہوتے ہی بیوی خود بخود نکاح سے علیحدہ ہوجائیں گی۔
1۔”كل بني آدم خطاء، وخير الخطائین التوابون”
(ترمذی شریف:2499)
2۔”وعند تفریط المرأۃ في حقوق اللّٰه تعالیٰ الواجبة علیها مثل الصلاة ونحوها أن تکون غیر عفیفة أو خارجة إلی المخالفة والشقاق مندوب إلیة”. (إعلاء السنن / کتاب الطلاق ۱۱؍۱۶۲ بیروت)
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب