ایک نارمل بچے کو بس پندرہ دن تشدد پر مبنی کوئی ویڈیو گیم کھیلنے دیں اور اسکے بعد اسکا مشاہدہ باقی بہن بھائیوں اور گلی کے بچوں کے ساتھ کرلیں. ہاتھ پہلے اٹھائے گا بات بعد میں کرے گا. نفسیات میں تشدد پسندی کی واحد وجہ ویڈیو گیمز نہیں ہیں. گھر و سکول کا ماحول، کم توجہ ملنا، احساس محرومی یا دوسرے جسمانی عارضے بھی ممکن ہوسکتے ہیں. لیکن آجکل اربن زندگی میں ویڈیو گیمز نے بچوں کی نفسیات کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں والدین سے بس ایک التماس کرتا ہوں. آپ خود مندرجہ ذیل گیمز میں سے کوئی ایک گیم کچھ گھڑی کھیل کر دیکھ لیں۔
بیٹل فیلڈ ہارڈ لائن
بلڈ بورن
ڈائننگ لائٹس
ہیٹرڈ
میڈ میکس
میٹل گئیر سولڈ پینٹم پین
مارٹل کمبٹ
جی ٹی اے آٹو تھیفٹ
یہ آجکی مقبول گیمز ہیں. لسٹ بہت لمبی ہے. مشہور گیمز میں بیس تیس اور بھی لکھی جاسکتی ہیں. لیکن ان گیمز میں سے کوئی ایک آپ گھنٹہ دو کھیل لیں. یہ اتنی طاقت رکھتی ہیں کہ آپکے بالغ ذہن کو بھی اذیت پسند بنا سکتی ہیں.
آج آٹھ سے پندرہ سال کا بچہ سیریس کرائم میں ملوث ہوجاتا ہے. پانچ سے دس سال کا بچہ اپنے ہم عمر کو لہولہان کردیتا ہے. معاشرہ جو پہلے ہی سڑاند کا شکار ہے اس میں ہم مسقبل کےاذیت پرست اپنے ہاتھوں تیار کرکے اپنا کل تباہ کررہے ہیں.
اپنے بچوں کو وقت دیں. انکی محبت میں انکو موبائل پی سی لیپ ٹاپ پلے سٹیشن اگر دینا لازم بھی ٹھہرا تب بھی انکی مصروفیات کو اس سکرین پر کنٹرول کریں. تربیت میں ہر ضد کو ماننا لازم نہ سمجھیں. ورنہ آپکا لگایا پودا کل کا کانٹا بن جائے گا.
ریاض علی خٹک