مفتی انس عبدالرحیم
*سب سے پہلے بچے کو کلمہ سکھائیں ۔ خواہ ایک ہی کلمہ ہو جس کو عورتیں آسانی سے سکھا سکتی ہیں ۔
*جب بچہ سمجھدار ہوجائے تو اس کو نماز،چند سورتیں اور دعائیں زبانی یاد کروائیں اور لڑکی نو سال کی ہوجائے تو اسے پردے میں بٹھائیں۔
*جب پڑھنے کے قابل ہوجائے تو کسی ایسے مکتب میں بچے کو داخل کرائیں جس کا استاد مشفق اور دین دار ہو۔
*پڑھنے میں بچہ پر بہت محنت اور بوجھ نہ ڈالیں۔شروع میں ایک گھنٹہ پڑھنے کا مقرر کرلیں۔پھر دو گھنٹے ،پھر تین گھنٹے۔ اس کی صحت اور طاقت کے مطابق اس سے محنت لیتے رہیں۔ایسا نہ کریں کہ سارا دن پڑھاتے رہیں ۔ایک تو تھکن کی وجہ سے بچہ جی چرانے لگے ھا پھر زیادہ محنت سے دل ودماغ خراب ہو کر ذہن اور حافظہ میں فتور آجائے گا اور بیمار کی طرح سست رہنے لگے گا۔ پھر پڑھنے میں اس کا جی نہ لگے گا۔
*معمول کی چھٹیوں کے سوا سخت ضرورت کے بغیر بار بار چھٹی نہ دلوائیں ۔
*بچوں کو خصوصا لڑکی کو کھانا پکانا اور سلائی ضرور سکھائیں ۔
*بچوں کو شروع ہی سے اس کا پابند کیجئے کہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھا کریں ۔
*بچوں کو غریبوں سے ملنے جلنے کی تعلیم دیجئے ۔ غریبوں کے ساتھ تعلق رکھنے میں دنیوی فائدہ بھی ہے۔ ان سے ملوگے تو وہ قدر کریں گے اورامیروں کے ساتھ تعلق رکھنے میں کچھ عزت نہیں ہوتی ۔
*اسی طرح بچوں کو اس کی بھی تاکید کیجئے کہ لباس خلاف شرع نہ پہنیں دوسری قوموں کے فیشن نہ اختیار کریں۔
*بچوں کو اس کی عادت ڈالیں کہ کوئی چیز تنہا نہ کھائے ۔بلکہ دوسرے بچوں کو تقسیم کر کے کھائے ۔
*بچوں کو یہ سکھائیں کہ جب سامنے آئے تو پہلے سلام کرے ۔
*جھوٹ بولنے سے اس کو نفرت دلائیں ۔
*لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک جگہ نہ کھیلنے دیں۔اگر وہ نامحرم ہیں تو اس میں آیندہ کی خرابیوں کی روک تھام ہے اگر وہ محرم ہیں تو لڑکیوں میں بے حیائی پیدا ہونے کا اور لڑکوں میں عقل کے نقصان کا احتمال ہے۔
*بچوں میں ہنسی دل لگی کی عادت نہ پیدا ہونے دیں ۔کیونکہ اس سے بے باکی پیدا ہوتی ہے ۔
*اس کا اہتمام رکھیں کہ بالغ بچوں کے ساتھ دوستی نہ پیدا ہونے پائے ۔کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اگر ان کے باہم کھیلنے میں کوئی مصلحت ہو تو اس کھیل کے وقت خود حاضر رہیں بعد میں میل جول نہ ہونے دیں۔
*اس کی عادت ڈالیے کہ وہ چھپ کر کوئی کام نہ کریں۔چھپ کر بچہ وہ کام کرے گا جس کو برا سمجھے گا تو گویا شروع سے ہی وہ برا کام کرنے کا عادی ہوجائے گا ۔
*اس کی بھی عادت ڈالیے کہ بچہ خواہ مخواہ کسی کی طرفداری نیہ کرے ۔لیکن بچہ فورا ً اس کی بات مانے اور ہر بات میں اس کو تواضع وخاکساری کی عادت ڈالیے ۔
*عورتوں کی عادت ہے کہ بچوں کو کبھی سپاہی سے ڈراتی ہیں کبھی بابوں اور ڈراؤنی چیزوں سے ۔یہ بری بات ہے۔اس سے بچہ کا دل بےحد کمزور ہوجاتا ہے ۔ بچوں کو صرف جہنم اور خدا کے عذاب سے ڈرائیے !
*بچوں کو دودھ پلانے کے لیے اور کھلانے کے لیے وقت مقرر رکھیں تاکہ وہ تندرست رہے ۔
*بچہ کو صاف ستھرا رکھیں کیونکہ اس سے تندرستی رہتی ہے ۔
*بچہ کا بہت زیادہ بناؤ سنگھار نہ کریں۔
*اگر لڑکا ہوتو اس کے سر پر بال مت بڑھائیں ۔
*اگر لڑکی ہے تو اس کو جب تک پردہ میں بیٹھنے کے لائق نہ ہوجائے زیور نہ پہنائیں۔اس سے ایک تو ان کی جان کو خطرہ ہے دوسرے بچپن ہی سے زیور کا شوق دل میں پیدا ہونا اچھا نہیں۔
*بچوں کے ہاتھ سے غریبوں کو کھانا کپڑا اور صدقات دلوایا کریں۔اسی طرح کھانے کی چیزیں ان کے بھائی بہنوں کو یاان اور بچوں کو تقسیم کرایا کریں ۔ تاکہ ان کو سخاوت کی عادت ہو مگر یہ یاد رکھیں کہ اپنی چیزیں ان کے ہاتھ سے دلوایا کریں ۔ خود جو چیز انہی کی ہو یعنی جس کے وہ مالک ہوں اس کا دلوانا کسی کے لیے درست نہیں۔
*زیادہ کھانے والوں کی برائی اس کے سامنے کیا کرو۔ مگر کسی کانام لے کر نہیں ۔بلکہ اس طرح کہ جو زیادہ کھاتا ہے۔لوگ اس کو حبشی کہتے ہیں۔اس کو بیل کہتے ہیں۔
*اگر لڑکا ہوتو سفید کپڑے کی رغبت دل میں پیدا کرو اور رنگین اور تکلف کے لباس سے اس کو نفرت دلاؤ” ایسے کپڑے لڑکیاں پہنتی ہیں تم ماشاء اللہ مرد ہو” ہمیشہ اس کے سامنے ایسی باتیں کیا کرو۔
*اس کی سب ضدیں پوری مت کریں ۔کیونکہ اس سے مزاج بگڑ جاتا ہے ۔
*بچے کو چلا کر بولنے سے روکیں ۔خاص کر اگر لڑکی ہو تو چلانے پر خوب ڈانٹیں ورنہ بڑی ہو کر وہی عادت ہوجائے گی ۔
*جن بچوں کی عادت یں خراب ہیں یا پڑھنے لکھنے ست بھاگتے ہیں یا تکلف کے کپڑے یا کھانے کے عادی ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے اور ان کے پاس کھیلنے سے ان کو بچائیں ۔
*مائیں درج ذیل باتوں سے بچوں کو نفرت دلاتی رہیں ۔ غصہ ،جھوٹ بولنا،کسی کو دیکھ کر جلنا،چوری کرنا،چغلی کھانا،اپنی بات منوانا،بے فائدہ باتیں کرنا، بے بات ہنسنا،یا زیادہ ہنسنا،دھوکہ دینا، جب ان باتوں میں سے کوئی بات ہوجائے تو فورا اس پر تنبیہ کریں ۔