مرتب: عبدالمعید
والدین کی حیثیت سے آپ اپنے بچے کو پیدائش کے دن سے سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔ بلاشبہ ایک ذمہ دار والدین کی حیثیت سے یہ آپ کے لیے سب سے ضروری بات ہے۔ دانت کے درد کی تکلیف سے لے کر پیٹ کے درد تک اور نیپی بدلنے سے لے کر لڑکپن کے مسائل تک بچوں کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔
بچوں کوسمجھنا ان کی بہتر پرورش کے لیے بہت ضروری ہے۔ آپ کا بچہ خاص شخصیت کا حامل ہے اور یہ خصوصیت ساری زندگی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ آپ کا رویہ بچے کی شخصیت کے مطابق ہو نہ کہ آپ اس کی شخصیت کو بدلنے کی کوشش کریں۔مشہور بات ہے کہ ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنے سے وہ ٹوٹ جاتی ہے۔بچے کی نفسیات کو سمجھنا ایک صبر آزما کام ہے۔بڑے سےبڑا تیراک اس دریا میں غوطہ لگانے کے بعد مایوس نہ سہی پر اُمید بھی نہیں ہوتا۔ ذیل میں ہم چند نکات لکھتے ہیں اگر آپ اپنے نونہالوں کی تربیت میں ان سے مددلیں تو مستقبل میں آپ کا بچہ نہ صرف آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بلکہ دوسروں کے لیے بھی باعث مسرت ہوگا
1۔مشاہدہ کیجیے!
بچے کی مصروفیات پر نظر رکھیں۔اس طرح آپ کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آپ کا بچہ کیسے کھیلتا ہے کیسے کھاتا ہے اور کس طرح دوسروں سے بات چیت کرتا ہے۔آپ کو اس کی بہت سی خوبیوں سے آگاہی ہوگی۔مشاہدہ کیجیے کہ آیا آپ کا بچہ کسی تبدیلی میں جلد رچ بس جاتا ہے یا وقت لیتا ہے،پھر اسی طبیعت سے ان کے ساتھ چلیں۔سارے بچے ایک جیسی خوبیوں کے حامل نہیں ہوتے،یاد رکھیے ہر بچے کی الگ شخصیت ہوتی ہے۔
2۔دوست کی حیثیت سے پیش آئیں!
بچے کے ساتھ دوست کی طرح پیش آئیں اس طرح آپ کا بچہ آپ کے بہت قریب آجاتا ہے لیکن ساتھ ہی کچھ حدود کا خیال رکھیں۔اگر وہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے دوست کی حیثیت سے فیصلہ کیجیے۔کیوں کہ اگر آپ والدین کی حیثیت سے فیصلہ کریں گے تو وہ قدرے مختلف ہوگااور اس طرح آپ کا بچہ آپ سے کوئی بات شئیر نہیں کرے گا۔یہیں سے تربیت میں ناکامی کی ابتدا ہوتی ہےاور پھر بڑھتے بڑھتے سرکشی کی راہ ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔
3۔بچے کے ساتھ وقت گزاریں!
اپنے بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ آپ اس کو اور اس کے دوستوں کو جان سکیں اور وہ بھی آپ سے اپنے مسائل شیئر کرسکے۔آپ کتنے ہی مصروف ہوں اسے تھوڑا وقت ضرور دیں تاکہ اسے پتا ہو کہ آپ اس کی مدد کے لیے موجود ہیں۔آج ہمارے بچے مونٹیسوری سے لے کرماسٹرتک پڑھ لیتے ہیں لیکن والدین کا ساتھ اورہمدردی نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف بچہ تعلیمی اعتبار سے ناقص بلکہ مختلف قسم کی خرافات میں مبتلا ہوکر اپنی جوانی کو بھی تباہ کربیٹھتا ہے۔پھر سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔مثل مشہور ہے :احتیاط افسوس سے بہتر ہے۔
4۔بچے کو ذمہ دار بنائیے!
اپنے بچے کو کم عمری ہی سے اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔اگر وہ بغیر گرائے کپ میں دودھ نکالتا ہے،یا کھیلنے کے بعد اپنے کھلونے واپس ڈبے میں رکھتا ہے تو یہ اس کے ذمہ دار ہونے کی نشانی ہے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔اس کی تعریف کیجیے۔تاکہ وہ اور زیادہ شوق سے اپنا کام خود کرے۔
5۔ بات سنئے!
اپنے بچے کی بات رد کرنے کے بجائے غور سے سنیں وہ بھی آپ کی بات غور سے سنے گا ۔اگر آپ اس سے متفق نہیں ہیں تواسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔
6۔اس پر الزام تراشی نہ کریں!
اگر وہ کوئی غلطی کرتا ہے تواسے بتائیں کہ اس نے جو کیا وہ صحیح نہیں تھا۔لیکن آپ اب بھی اس سے محبت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے ۔
7۔ اپنے بچے کو پر اعتماد بنائیں!
اس میں اعتماد پیدا کریں۔اگر اس کا اسکول میں پہلا دن ہے تو اس سے اسکول کے بارے میں پوچھیں،اس نے اسکول میں کیا پڑھا،اسے اپنا ٹیچر کیسا لگا۔اس کا اعتماد بڑھائیں تاکہ وہ نئے اسکول کا بہتر انداز میں سامناکر سکے۔اعتماد کی کمی بچوں کو معاشرے میں بہت پیچھے کردیتی ہے۔
8۔گھریلو معاملات میں اس کی رائے لیں!
اگر آپ گھر کے معاملات میں بچے سے رائے لیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بہت اہم سمجھے گااور زیادہ ذمہ دار بن جائے گا۔گھر کی سیٹنگ ہو یاکمرے کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں اس میں اپنے بچے کی رائے لیں اور اس میں چھپے منصوبے پر غور کریں بجائے اس کے کہ اس کی غلطیاں نکالیں۔اس طرح آپ کے بچے میں اعتماد پیدا ہوگااور قوت فیصلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔
9۔بچے کی ذاتی دلچسپیوں سے واقفیت رکھیے!
بچے کی پرورش پر دھیان دینے کے ساتھ اس کی ذاتی پسندنا پسند سے بھی واقفیت ضروری ہے۔اپنے بچے سے اس کی پسند اور ناپسند کے بارے میں بات کیجیے۔اسے اس کی پسندیدہ جائز چیز لے کر دیں اور اس کے ساتھ اس کا پسندیدہ کھیل کھیلیے۔اس طرح آپ کو اپنے بچے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
10 ۔اپنے وعدے پر قائم رہیں!
اپنے بچے سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرکے آپ اس کا دل جیت لیں گے۔چاہے وہ ساحل سمندر پر جانے کا ہو یا چڑیا گھر کا اپنے وعدے پر قائم رہیے اس طرح آپ کے بچے میں بھی ایمانداری بڑھے گی۔تجربہ شاہد ہے بچہ اپنے بڑوں کی موڈلائز(کاپی)کرتا ہے۔ایک واعظ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے ایک پوتے نے میرے گھر والوں کو جمع کیا اور میری تقریر کی نقل اتارنی شروع کردی اسی طرح حرم میں مجھے تلاوت کرتے ہوئے دیکھ قرآن لے کر میری طرح انگلی پھیر نی شروع کردی ۔ہماری اپنی ہی عادات بچوں میں منتقل ہوتی ہیں اور پھر بعد میں ہم پچھتاتے ہیں کہ ہمارے بچے کو کیا ہورہا ہے۔
سب باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ بچے کو جیسا ماحول فراہم کریں گےویسی ہی نشو نما پائے گا ۔ہمارے ایک دوست فرماتے ہیں جب میرے بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو میں نے انہی کی مناسبت سے کمرے میں کتابیں لاکر رکھ دیں ،اب جب انہوں نے ہر جگہ کتابیں دیکھیں پڑھنا تو آتا نہیں تھا بس ایسے ہی ورق الٹا کر کتاب ختم کردیتے ۔بالآخر یہ شوق ایسا گُدگدایا کہ اب کوئی رات ایسی نہیں گزرتی کہ جس میں میرے بچے کتاب ہاتھ میں لے کر نہ سوئیں۔جبکہ عمومی معاشرے میں موبائل اور ریموٹ ہاتھ میں ہوتا ہے اور رات بیت جاتی ہے۔اس میں کسی کا کیا قصور اپنی ہی کم نصیبی اور اپنا ہی ضرر ہے!