سوال: میری بہن کا نکاح اگلے ماہ متوقع ہے الحمد للہ میرے والد صاحب حیات ہیں لیکن ہمارے خاندان میں رواج ہے کہ عزت کے طورپر پہلے سےموجود بڑے دامادوں کو دلہن کا وکیل بنایا جاتاہے۔ کیا یہ طریقہ درست ہے کہ والد صاحب اس مجلس میں موجود ہوں مگروکیل کوئی دوسرا شخص ہو؟
الجواب باسم ملھم الصواب
آپ کے والد کی موجودگی میں آپ کے والد صاحب کو چاہیے کہ وہ خود ہی وکیل بن کراپنی بیٹی کا نکاح کریں یہی مسنون طریقہ ہے،کسی اور کو وکیل بنانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر آپ کے والد صاحب داماد کو وکیل بنادیں تو یہ بھی جائز ہے، تاہم لڑکی سے اجازت کے وقت پردے کا خیال رکھنا ضروری ہے.
——————————————–
حوالہ جات :
1.ومن امر رجلان یتزوج صغیرتہ فزوجھا عندرجل والاب حاضر، صح والا لاء۔(الفتاوی الھندیہ: جلد 1، صفحہ268)
2.يصح التوكيل بالنكاح، وإن لم يحضره الشهود.(الفتاوی الھندیۃ: جلد:1،صفحہ:294)
3.قال: “وليس للوكيل أن يوكل فيما وكل به” لأنه فوض إليه التصرف دون التوكيل به، وهذا لأنه رضي برأيه والناس متفاوتون في الآراء.قال: “إلا أن يأذن له الموكل” لوجود الرضا “أو يقول له اعمل برأيك” لإطلاق التفويض إلى رأيه، وإذا جاز في هذا الوجه يكون الثاني وكيلا عن الموكل. (الهداية: جلد :3،صفحہ :148)
4.سوال: باپ مجلس نکاح میں موجود ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو وکیل بنا سکتا ہے؟
جواب: دلہن کا باپ خود موجود ہو تو کسی اور کو وکیل بنانے کی ضرورت نہیں خود ہی نکاح کرے یہی طریقہ مسنون متوارثہ ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو وکیل بنایا جائےتو وہ بھی جائز ہے۔ (کفایت المفتی: جلد 5، صفحہ 72)
واللہ اعلم بالصواب
9 جنوری 2022
16جمادی الثانی 1444
Load/Hide Comments