(دوسراحصہ)
اعتکاف کے احکام
اعتکاف سنتِ کفایہ ہے:
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت کفایہ ہے یعنی محلے کے کچھ لوگ اس سنت کو ادا کرلیں تو سب کی طرف یہ سنت ادا ہوجائے گی، اگر اہل محلہ میں سے کسی نے بھی اعتکاف نہ کیا تو تمام اہل محلہ سنت چھوڑنے کے مرتکب قرار پائیں گے۔
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 265)
والاعتكاف على ثلاثة أقسام واجب في المنذور وسنة كفاية مؤكدة في العشر الأخير من رمضان ومستحب فيما سواه
اعتکاف کی مسجد:
اعتکاف کس طرح کی مسجد میں ہوسکتا ہے؟ اس میں تین طرح کے فتاوی منقول ہیں:
(1) اعتکاف ہر اس مسجد میں ہوسکتا ہے جس میں پنج وقتہ نمازجماعت سے ہوتی ہو۔
(2) اعتکاف ہر اس مسجد میں ہوسکتا ہے جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو، چاہے پانچ ٹائم کی نمازہوتی ہو یا اس سے کم۔
(3) اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا ہے چاہے جماعت سے نماز ہوتی ہو یا نہیں۔
پہلے قول میں زیادہ احتیاط ہے۔
اللباب في شرح الكتاب (1/ 176)
والمراد بالمسجد مسجد الجماعة، وهو: ما له إمام ومؤذن، أديت فيه. الخمس أولا، كما في العناية والفيض والنهر وخزانة الأكمل والخلاصة والزازية، وفي الهداية عن أبي حنيفة: أنه لا يصح إلا في مسجد يصلى فيه الصلوات الخمس، لأنه عبادة انتظار الصلاة فيختص بمكان تؤدى فيه؛ وصححه الكمال وعن الإمامين يصح في كل مسجد. وصححه السروجي، وهو اختيار الطحاوي، وقال الخير الرملي: وهو أيسر، خصوصاً في زماننا، فينبغي أن يعول عليه. اهـ
سنت اعتکاف میں بیٹھنے کا وقت:
آخری عشرے کے سنت اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ بیسویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں آجائے، غروب آفتاب کے بعد چند لمحے بھی بغیر اعتکاف کے گزرگئے تو یہ سنت اعتکاف نہ ہوگا، نفل ہوجائے گا۔
سنت اعتکاف میں استثناء کی شرط:
اعتکاف میں استثناء کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اعتکاف کی نیت کرتے وقت زبان سے یہ کہہ دے کہ میں اعتکاف تو کررہا ہوں لیکن میں جنازہ، عیادت مریض، ٹھنڈک کا غسل،ضروری کام،کسی اور جگہ تراویح پڑھانے کے لیے جایاکروں گا۔اس طرح کا استثناء منت والے اعتکاف میں درست ہے،لیکن کیا رمضان کے سنت اعتکاف میں اس طرح کا استثناء جائز ہے یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے اس کی اجازت دی ہے۔فتاوی فریدیہ میں بھی اسی موقف کو اختیار کیا گیا ہے۔ جبکہ مفتی تقی عثمانی صاحب اس کے قائل نہیں۔اس طرح کے اختلافی مسائل میں شدت مناسب نہیں۔ جس کو جس کی تحقیق پر اطمینان ہو، عمل کرسکتا ہے۔
معتکف کن چیزوں کے لیے نکل سکتا ہے؟
معتکف ،اعتکاف سے صرف شرعی یا طبعی حاجت کے لیے نکل سکتا ہے ۔شرعی حاجت ،جیسے: جمعہ پڑھنے کے لیے جامع مسجد جانا شرعی حاجت ہے۔اذان شرعی حاجت ہے،اس لیے ان کے لیے نکلنا جائز ہے۔مسجد کو بدبو سے بچانے کے لیے ہوا خارج کرنے کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے۔سخت گرمی کی وجہ سے جسم میں بدبو پیدا ہوگئی جس سے مسجد میں بو آرہی ہو تو قواعد کی رو سے یہ بھی شرعی حاجت میں آئے گااور ایسی صورت میں غسل کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہوگا۔معتکف کے لیے طبعی حاجت کے لیے اعتکاف سے نکلنا جائز ہے،جیسے:پیشاب پاخانہ یا غسل ِجنابت کے لیے نکلنا جائز ہے۔
المبسوط للسرخسي (3/ 117)
وَلَا يَنْبَغِي لِلْمُعْتَكِفِ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ إلَّا لِجُمُعَةٍ أَوْ غَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَمَّا الْخُرُوجُ لِلْبَوْلِ وَالْغَائِطِ فَلِحَدِيثِ عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – قَالَتْ «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَا يَخْرُجُ مِنْ مُعْتَكِفِهِ إلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ»؛ وَلِأَنَّ هَذِهِ الْحَاجَةِ مَعْلُومٌ وُقُوعُهَا فِي زَمَانِ الِاعْتِكَافِ، وَلَا يُمْكِنُ قَضَاؤُهَا فِي الْمَسْجِدِ فَالْخُرُوجُ لِأَجْلِهَا صَارَ مُسْتَثْنًى بِطَرِيقِ الْعَادَةِ وَكَانَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – يَقُولُ: إذَا خَرَجَ لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَدْخُلَ تَحْتَ سَقْفٍ فَإِنْ آوَاهُ سَقْفٌ غَيْرُ سَقْفِ الْمَسْجِدِ فَسَدَ اعْتِكَافُهُ، وَهَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ فَإِنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «كَانَ يَدْخُلُ حُجْرَتَهُ إذَا خَرَجَ لِحَاجَةٍ»
کن چیزوں کے لیے نکل نہیں سکتا:
شرعی یا طبعی حاجت کے علاوہ کسی اور کام کے لیے اعتکاف سے نکلنا جائز نہیں۔ اگر شرعی یا طبعی حاجت نہیں تھی پھر بھی اعتکاف سے نکل گیا تو جان بوجھ کر نکلا ہو یا بھول کر ، ایک گھڑی کے لیے نکلا یا ایک گھنٹے کے لیے،سنت اعتکاف ختم ہوگیا اور وہ نفلی اعتکاف بن گیا۔ ایسی صورت میں ایک دن اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی فتوی ہے اور پاکستان کے اکثر علما اسی پر فتوی دیتے ہیں اور اس تحریر میں بیان کیے گئے تمام مسائل بھی اسی پر مبنی ہیں۔البتہ صاحبین کا مسلک یہ ہے کہ اعتکاف اس وقت ٹوٹے گا جب دن کا اکثر حصہ مسجد سے باہر رہے۔
المبسوط للسرخسي (3/ 118)
فَأَمَّا إذَا خَرَجَ سَاعَةً مِنْ الْمَسْجِدِ فَعَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – يَفْسُدُ اعْتِكَافُهُ، وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى لَا يَفْسُدُ مَا لَمْ يَخْرُجْ أَكْثَرَ مِنْ نِصْفِ يَوْمٍ، وَقَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – أَقِيسُ وَقَوْلُهُمَا أَوْسَعُ۔ قَالَا: الْيَسِيرُ مِنْ الْخُرُوجِ عَفْوٌ لِدَفْعِ الْحَاجَةِ فَإِنَّهُ إذَا خَرَجَ لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ لَا يُؤْمَرُ بِأَنْ يُسْرِعَ الْمَشْيَ، وَلَهُ أَنْ يَمْشِيَ عَلَى التُّؤَدَةِ فَظَهَرَ أَنَّ الْقَلِيلَ مِنْ الْخُرُوجِ عَفْوٌ وَالْكَثِيرَ لَيْسَ بِعَفْوٍ فَجَعَلْنَا الْحَدَّ الْفَاصِلَ أَكْثَرَ مِنْ نِصْفِ يَوْمٍ فَإِنَّ الْأَقَلَّ تَابِعٌ لِلْأَكْثَرِ فَإِذَا كَانَ فِي أَكْثَرِ الْيَوْمِ فِي الْمَسْجِدِ جُعِلَ كَأَنَّهُ فِي جَمِيعِ الْيَوْمِ فِي الْمَسْجِدِ كَمَا قُلْنَا فِي نِيَّةِ الصَّوْمِ فِي رَمَضَانَ إذَا وُجِدَتْ فِي أَكْثَرِ الْيَوْمِ جُعِلَ كَوُجُودِهَا فِي جَمِيعِ الْيَوْمِ وَأَبُو حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – يَقُولُ: رُكْنُ الِاعْتِكَافِ هُوَ الْمَقَامُ فِي الْمَسْجِدِ وَالْخُرُوجُ ضِدُّهُ فَيَكُونُ مُفَوِّتًا رُكْنَ الْعِبَادَةِ، وَالْقَلِيلُ وَالْكَثِيرُ فِي هَذَا سَوَاءٌ كَالْأَكْلِ فِي الصَّوْمِ وَالْحَدَثِ فِي الطَّهَارَةِ.
اعتکاف کے معمولات :
(1) اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے تمام کام کاج کو چھوڑ کر محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی چوکھٹ پرپڑ گیا ہے اور اس چوکھٹ سے اس وقت تک نہیں اٹھنا جب تک اس کو راضی نہ کرلےاور اپنی بخشش نہ کروالے۔جب اعتکاف کا اتنا اعلی مقصد ہے تو معتکف کو اس کے آداب بھی پورے بجالانا ہوں گے۔یہاں ادب سے ہی ہر چیز ملتی ہے۔
المبسوط للسرخسي (3/ 115)
(قَالَ) عَطَاءٌ مَثَلُ الْمُعْتَكِفِ كَمَثَلِ رَجُلٍ لَهُ حَاجَةٌ إلَى عَظِيمٍ فَيَجْلِسُ عَلَى بَابِهِ، وَيَقُولُ: لَا أَبْرَحُ حَتَّى تَقْضِيَ حَاجَتِي وَالْمُعْتَكِفُ يَجْلِسُ فِي بَيْتِ اللَّهِ تَعَالَى، وَيَقُولُ: لَا أَبْرَحُ حَتَّى يَغْفِرَ لِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْأَعْمَالِ إذَا كَانَ عَنْ إخْلَاصٍ
(2) اعتکاف میں اچھی یا جائز باتیں کرنی چاہئیں۔ لڑائی جھگڑوں اور گناہ پر مشتمل باتوں سے بچنا چاہیے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 117)
وَأَمَّا التَّكَلُّمُ بِمَا لَا مَأْثَمَ فِيهِ فَلِقَوْلِهِ تَعَالَى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا} [الأحزاب: 70] قِيلَ فِي بَعْضِ وُجُوهِ التَّأْوِيلِ: أَيْ صِدْقًا وَصَوَابًا لَا كَذِبًا وَلَا فُحْشًا.وَقَدْ رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَتَحَدَّثُ مَعَ أَصْحَابِهِ وَنِسَائِهِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فِي الْمَسْجِدِ.فَأَمَّا التَّكَلُّمُ بِمَا فِيهِ مَأْثَمٌ فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ فِي غَيْرِ الْمَسْجِدِ فَفِي الْمَسْجِدِ أَوْلَى.
(3) اعتکاف کے دوران تجویدِ قرآن کی تصحیح، مسائل سیکھنا سکھانا، انبیائے کرام اور صلحا کے واقعات سننا سنانا چاہیے۔وعظ ونصیحت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
(4) اعتکاف میں نماز، تلاوت، ذکرواذکار اور اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا معمول بنانا چاہیے۔
(5) اعتکاف میں ٹیپ یا ریڈیو پرقوالی یا خبریں سننا یا اخبار پڑھنا مسجد اور اعتکاف کے آداب کے خلاف ہے، اس سے احتراز ضروری ہے، البتہ ہر قسم کے خالص دینی لٹریچر پر مبنی جرائد ورسائل کا پڑھنا درست ہے۔
اعتکاف کے مکروہات:
(1) بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں بلکہ مکروہ ہے۔
(2) مسجد میں جھگڑا فساد کرنا سخت مکروہ ہے۔ احادیث میں اسے علامات قیامت میں سے کہا گیا ہے۔
(3) مسجد میں بےہودہ باتیں کرنا، بے ہودہ مذاق کرنا، بے ہودہ حرکات کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔
(4) مسجد میں سامان لاکر بیچنا مکروہ ہے۔سامان لائے بغیر صرف زبانی بات چیت جائز ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 117)
وَالْمُرَادُ مِنْ الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ هُوَ كَلَامُ الْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ مِنْ غَيْرِ نَقْلِ الْأَمْتِعَةِ إلَى الْمَسْجِدِ
ترتیب: محمد انس عبدالرحیم