تیسراحصہ
اعتکاف مسجد کی حدود میں ہوتا ہے:
مسجد کمیٹی سے مسجد کی حدود معلوم کرلینی چاہیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسجد کے مضافات اور ملحقہ حصوں کو مسجد سمجھ کر اس میں بھی آمدورفت رہتی ہے، حالانکہ اس سے سنت اعتکاف ختم ہوچکا ہوتا ہے، اعتکاف صرف مسجد کی اصلی حدود میں ہوتا ہے۔
اذان دینا:
معتکف اذان دے سکتا ہے، چاہے وہ موذن ہو یا نہ ہو اور چاہے اذان کی جگہ مسجد کی حدو دمیں ہو یا باہر ۔
المبسوط للسرخسي (3/ 126)
وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ قَوْلُهُمْ جَمِيعًا وَاسْتَحْسَنَ أَبُو حَنِيفَةَ هَذَا؛ لِأَنَّهُ مِنْ جُمْلَةِ حَاجَتِهِ فَإِنَّ مَسْجِدَهُ إنَّمَا كَانَ مُعْتَكَفًا لِإِقَامَةِ الصَّلَاةِ فِيهِ بِالْجَمَاعَةِ، وَذَلِكَ إنَّمَا يَتَأَتَّى بِالْأَذَانِ وَهُوَ بِهَذَا الْخُرُوجِ غَيْرُ مُعْرِضٍ عَنْ تَعْظِيمِ الْبُقْعَةِ أَصْلًا بَلْ هُوَ سَاعٍ فِيمَا يَزِيدُ فِي تَعْظِيمِ الْبُقْعَةِ فَلِهَذَا لَا يَفْسُدُ اعْتِكَافُهُ.
جنازہ اورعیادت:
عیادت اور نماز جنازہ کے لیے معتکف باہر نہیں نکل سکتا ، البتہ اگر قضائے حاجت جیسی ضرورت کے لیے نکلنے پر دیکھا کہ نماز جنازہ شروع ہورہی ہے تو اس میں شریک ہوسکتا ہے ، اسی طرح راستہ ہی میں چلتے چلتے عیادت بھی کرسکتا ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 114)
وَيَجُوزُ أَنْ تُحْمَلَ الرُّخْصَةُ عَلَى مَا إذَا كَانَ خَرَجَ الْمُعْتَكِفُ لِوَجْهٍ مُبَاحٍ كَحَاجَةِ الْإِنْسَانِ أَوْ لِلْجُمُعَةِ، ثُمَّ عَادَ مَرِيضًا أَوْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ كَانَ خُرُوجُهُ لِذَلِكَ قَصْدًا وَذَلِكَ جَائِزٌ.
نفلی وضو:
وضو ہے ، پھر بھی وضو پر وضو یعنی نفلی وضو کے لیے مسجد سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ہاں! اگر وضو نہیں ہے اور نفلی عبادت، جیسے: تلاوت ، نوافل وغیرہ کے لیے وضو کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے نکل سکتا ہے۔
غسل جمعہ:
معتکف کے لیے جمعہ کے غسل کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ جائز نہ ہو؛کیونکہ غسلِ جمعہ انسانی حاجات میں سے نہیں ہے اس لیے نہیں نکلناچاہیے۔
کھانالینے جانا:
اگر باوجود کوشش کے کھانا لانے کا کوئی انتظام نہ ہوسکے تو خود بھی جاسکتا ہے، مگر بلا ضرورت ٹھہرنا جائز نہیں ۔
بلاضرورت کھڑے رہنا:
وضو کے بعد وضو خانہ پر کھڑے ہوکروضو کا پانی خشک کیا،یا کسی سے بات چیت کے لیے کھڑا رہ گیا تو اعتکاف ٹوٹ گیا۔ہاں! اگر بیت الخلاء پر رش لگا ہوا ہے اس وجہ سے لائن میں کھڑاہونا پڑایا وضو خانے پر وضو کے لیے لائن میں کھڑا ہونا پڑا تو اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 114)
وَيَجُوزُ أَنْ تُحْمَلَ الرُّخْصَةُ عَلَى مَا إذَا كَانَ خَرَجَ الْمُعْتَكِفُ لِوَجْهٍ مُبَاحٍ كَحَاجَةِ الْإِنْسَانِ أَوْ لِلْجُمُعَةِ، ثُمَّ عَادَ مَرِيضًا أَوْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ كَانَ خُرُوجُهُ لِذَلِكَ قَصْدًا وَذَلِكَ جَائِزٌ.
ہاتھ دھونے کے لیے نکلنا:
کھانے کے لیے، ہاتھ دھونے کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں؛گو یہ ایک سنت عمل ہے ،لیکن شرعی یا طبعی حاجت نہیں۔
صابن سے منہ دھونا:
وضو کے ارادے کے بغیر صابن سے ہاتھ منہ دھونے سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔ہاں! اگر وضو ٹوٹ گیا ہے اور وضو بنانے کے لیے صابن لے کر نکلا اور صابن سے وضو کیا تو اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
سخت بیماری :
معتکف سخت بیمار ہوجائے اور مسجد میں ٹھیرنا مشکل ہو تو گھر چلاجائے اس سے اعتکاف تو ٹوٹ جائے گا قضا بھی کرنا پڑے گی مگر یہ گناہ گار نہ ہوگا ۔
گلے میں ہار ڈالنا:
معتکف کے گلے میں ہار ڈالنا بذات خود جائز ہے لیکن رسم بن جانے کی وجہ سے قابل ترک ہے۔
عورت کا اعتکاف:
۱: عورت بھی اعتکاف کے وقت میں (۲۰تاریخ کے غروب سے پہلے) نیت کرکے اس جگہ پر آجائے جہاں ہمیشہ نماز پڑھا کرتی ہے اگر نماز کے لئے جگہ مقررہ نہ ہوتو ایک جگہ نماز کیلئے متعین کر لے اور وہاں اعتکاف کی نیت سے بیٹھ جائے اب جن باتوں سے مردوں کا اعتکا ف ٹوٹتا ہے عورت کا بھی ٹوٹ جائے گا اور جس طبعی ضرورت کی بنیاد پر مرد کے لیے نکلنا جائز ہے اس کے لیے عورت بھی نکل سکتی ہے ۔
المبسوط للسرخسي (3/ 119)
وَلَا تَعْتَكِفُ الْمَرْأَةُ إلَّا فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا وَقَالَ الشَّافِعِيُّ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: لَا اعْتِكَافَ إلَّا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فِيهِ سَوَاءٌ قَالَ: لِأَنَّ مَسْجِدَ الْبَيْتِ لَيْسَ لَهُ حُكْمُ الْمَسْجِدِ بِدَلِيلِ جَوَازِ بَيْعِهِ وَالنَّوْمِ فِيهِ لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ، وَهَذَا؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ تَعْظِيمُ الْبُقْعَةِ فَيُخْتَصُّ بِبُقْعَةِ مُعْظَمِهِ شَرْعًا، وَذَلِكَ لَا يُوجَدُ فِي مَسَاجِدِ الْبُيُوتِ.
(وَلَنَا) أَنَّ مَوْضِعَ أَدَاءِ الِاعْتِكَافِ فِي حَقِّهَا الْمَوْضِعُ الَّذِي تَكُونُ صَلَاتُهَا فِيهِ أَفْضَلَ كَمَا فِي حَقِّ الرِّجَالِ وَصَلَاتُهَا فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا أَفْضَلُ فَإِنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمَّا «سُئِلَ عَنْ أَفْضَلِ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ فَقَالَ: فِي أَشَدِّ مَكَان مِنْ بَيْتِهَا ظُلْمَةً» وَفِي الْحَدِيثِ أَنَّ «النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمَّا أَرَادَ الِاعْتِكَافَ أَمَرَ بِقُبَّةٍ فَضُرِبَتْ فِي الْمَسْجِدِ فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ رَأَى قِبَابًا مَضْرُوبَةً فَقَالَ: لِمَنْ هَذِهِ فَقِيلَ لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ فَغَضِبَ وَقَالَ: آلْبِرَّ يُرِدْنَ بِهِنَّ وَفِي رِوَايَةٍ يُرِدْنَ بِهَذَا، وَأَمَرَ بِقُبَّتِهِ فَنُقِضَتْ فَلَمْ يَعْتَكِفْ فِي ذَلِكَ الْعَشْرِ» فَإِذَا كَرِهَ لَهُنَّ الِاعْتِكَافَ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ أَنَّهُنَّ كُنَّ يَخْرُجْنَ إلَى الْجَمَاعَةِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ؛ فَلَأَنْ يُمْنَعْنَ فِي زَمَانِنَا أَوْلَى، وَقَدْ رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهَا إذَا اعْتَكَفَتْ فِي مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ جَازَ ذَلِكَ، وَاعْتِكَافُهَا فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا أَفْضَلُ، وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ؛ لِأَنَّ مَسْجِدَ الْجَمَاعَةِ يَدْخُلُهُ كُلُّ أَحَدٍ، وَهِيَ طُولُ النَّهَارِ لَا تَقْدِرُ أَنْ تَكُونَ مُسْتَتِرَةً وَيُخَافُ عَلَيْهَا الْفِتْنَةُ مِنْ الْفَسَقَةِ فَالْمَنْعُ لِهَذَا، وَهُوَ لَيْسَ لِمَعْنًى رَاجِعٍ إلَى عَيْنِ الِاعْتِكَافِ فَلَا يَمْنَعُ جَوَازَ الِاعْتِكَافِ وَإِذَا اعْتَكَفَتْ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا فَتِلْكَ الْبُقْعَةُ فِي حَقِّهَا كَمَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ فِي حَقِّ الرَّجُلِ لَا تَخْرُجُ مِنْهَا إلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 113)
وَهَذَا لَا يُوجِبُ اخْتِلَافَ الرِّوَايَاتِ، بَلْ يَجُوزُ اعْتِكَافُهَا فِي مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ عَلَى الرِّوَايَتَيْنِ جَمِيعًا بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَصْحَابِنَا وَالْمَذْكُورُ فِي الْأَصْلِ مَحْمُولٌ عَلَى نَفْيِ الْفَضِيلَةِ لَا عَلَى نَفْيِ الْجَوَازِ تَوْفِيقًا بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ وَهَذَا عِنْدَنَا.
۲: بغیر کسی مجبوری کے اس جگہ سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
۳: جب اعتکاف میں بیٹھنے کا ارادہ ہو تو نماز پڑھنے کی جگہ اوراس کے برابر ایک مصلے کی جگہ اور متعین کرلے تا کہ آرام سے لیٹ بیٹھ سکے۔اب اس حدود سے باہر نہ نکلے پورے گھر یا بڑے کمرے کو اعتکاف کے لئے مقررکرنا صحیح نہیں بلکہ چھوٹا کمرہ جونمازکے لئے ہی ہو اعتکاف گاہ بن سکتا ہے ۔
۴: عورت کو اپنے شوہر کی اجا زت سے اعتکاف کرنا چاہیے،لیکن شوہر جب اجازت دے دے تو اب منع کرنے کا اس کو حق نہیں ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 109)
وَإِذَا أَذِنَ الرَّجُلُ لِزَوْجَتِهِ بِالِاعْتِكَافِ؛ لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَنْهُ
۵: مخصوص ایام میں اعتکاف میں بیٹھنا درست نہیں اگر اعتکاف کے دو ران ایام شروع ہوجا ئیں تو بھی اعتکاف سے اُٹھ جانا چاہئے اور بعد میں ایک دن اس کی قضا کرلے ۔
اعتکاف کی قضا:
اگرواجب یا سنت اعتکاف فاسد ہو جائے (مرد ہویا عورت )تو ان پرصرف ایک دن کی قضا واجب ہے،دس دن کی نہیں۔قضا چاہے رمضان ہی میں کرلیں یا بعد میں ، البتہ دوسرے دنوںمیں اعتکاف کی قضاکے ساتھ روزہ بھی ضروری ہے۔اعتکاف اگر دن میں ٹوٹا ہو تو صرف دن دن کی قضا واجب ہوگی۔ کسی بھی دن صبح صادق سے پہلے مسجد میں آجائے اور اس دن روزے کے ساتھ غروب تک مسجد میں رہے اور اگر رات کو ٹوٹا ہے تو رات دن دونوں کی قضا کرے یعنی کسی بھی دن غروب سے پہلے اعتکاف میں داخل ہو اوراگلے دن غروب کے بعد نکلے ۔ (شامی، ہدایہ،احسن الفتاویٰ، مسائل بہشتی زیور)
البتہ اس معاملے میں مفتی کفایت اللہ صاحب کی رائے کافی نرم ہے۔ آپ اپنی مشہور کتاب “تعلیم الاسلام” میں فرماتے ہیں:
سوال: اعتکاف فاسد ہوجائے تو اس کی قضا ہے یا نہیں؟
جواب: اعتکافِ واجب کی قضا واجب ہے، سنت اور نفل کی قضا واجب نہیں۔
(تعلیم الاسلام:ص 148مکتبہ لدھیانوی)
ترتیب وپیشکش: محمد انس عبدالرحیم