تحریر:انصار عباسی
بین المذہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے نام پر ایک نیا رواج پاکستان میں چل نکلا ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں اس خواہش کا اظہار کیاتھا کہ انہیں ہندو مت سے تعلق رکھنے والی مذہبی رسم ہولی کے موقع پر مدعو کیا جائے تاکہ ان پر بھی رنگ پھینکا جائے۔چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو حال ہی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، شیری رحمان کے ساتھ ہندواقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے ہمراہ پوجا کرتے دکھایاگیا۔ آج آپا نثار فاطمہ مرحومہ کے بیٹے اور وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال کا ایک ٹیوٹ پڑھا جس میں انہوں نے مسیحی برادری کے ساتھ مل کر اپنے حلقہ نارووال میں کرسمس منائی ۔ یہ سب بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے نام پر کیاجارہا ہے۔ ماحول ایسا بنادیاگیا ہے کہ اگراس بارے میں یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا ہمیں اسلام اس حدتک جانے کی اجازت دیتا ہے توجواب ملتا ہے کہ نفرت نہ پھیلاؤ،ا قلیتوں کو تحفظ دو۔ا س سوال میں نہ تو کسی دوسرے مذہب کی طرف نفرت کا اظہار ہے اور نہ ہی کہیں اس سے یہ شائبہ ملتا ہے کہ اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی بات کی گئی ہو۔ سوال کا مقصد یہ ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ا س بارے میں میں تو کچھ کہنے کی قابلیت نہیں رکھتا لیکن قارئین کرام کی خدمت میں محترم جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی کی ایک تحریر کو پیش کررہا ہوں جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم نواز شریف کی ہولی منانے کی خواہش پر جنگ اخبار میں ہی تحریر کی تھی ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
“اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیروں کے ساتھ رواداری کی بڑی فراخدلی کے ساتھ تعلیم دی ہے ۔ خاص طور پر جو غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے باشندے ہوں ان کی جان ومال ، عزت وآبرو اور حقوق کے تحفظ کو اسلامی ریاست کی ذمہ داری قرار دیاہے ۔ اس بات کی پوری رعایت رکھی گئی ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو بلکہ انہیں روزگار، تعلیم اور حصول انصاف میں برابر کے مواقع حاصل ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ رکھاجائے اور ان کی دل آزاری سے مکمل پر ہیز کیا جائے۔ ہمارے فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ “اگر کسی شخص نے کسی یہودی یا آتش پرست کو اے کافر ! کہہ کر خطاب کیا جس سے اس کی دل آزاری ہوئی تو ایسا خطاب کرنے والا گنہگار ہوگا ” ( فتاویٰ عالمگیر یہ ص 59 ج 5)
قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ :اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ۔ اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنےوالوں کو پسند کرتا ہے ” ( ترجمہ سورۃ 60 آیت 8 )
اسی بنیاد پر احادیث کا ذخیرہ اوراسلامی فقہ اورتاریخ کی کتابیں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ نہ صرف رواداری ، بلکہ حسن سلوک اور برابر کے انسانی حقوق کی تاکید وترغیب سے بھری ہوئی ہیں ( میں نے اپنی کتاب “اسلام اور سیاسی نظریات ” میں ان تعلیمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے ) لیکن رواداری ، حسن سلوک اور انصاف کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مذاہب کے درمیان فرق اور امتیاز ہی کو مٹادیا جائے ، اور مسلمان رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقیدہ ومذہب ہی کی تاکید شروع کردیں ۔ یا اس عقیدہ پر مبنی مذہبی تقریبات میں شریک ہو کریا ان کے مذہبی شعائر کو اپنا کر ان کے مذہبی شعائر کو اپنا کر ان کے مذہب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں ۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو واضح طرز عمل بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ” تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرادین”۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئی رکاوٹ ڈالے ، نہ دوسروں کو ڈالنے دے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی وہ مذہبی رسمیں جو ان کے عقیدے پر مبنی ہیں ان میں کوئی مسلمان انہی کے ایک فرد کی طرح حصہ لینا شروع کردے۔ پچھلے دنوں ہندوؤں کے دیوالی کے تہوار کے موقع پر ہمارے متعدد سیاسی رہنماؤں نے رواداری کے جوش میں دیوالی کی تقریبات میں باقاعدہ حصہ لیا۔ بعض رہنماؤں نے ہندوؤں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے تلک بھی لگایا ، اور اس کی وسیع پیمانے پر فخر یہ انداز میں نشرواشاعت بھی ہوئی۔ خود ہمارے وزیر اعظم بھی دیوالی کی تقریب میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ کیک بھی کاٹا۔ اورا خباری اطلاع کے مطابق انہوں نے ا س خواہش کا اظہار بھی کیا کہ انہیں ہولی کے موقع پر بلایاجائے اور ان پر رنگ بھی پھینکا جائے غالباً ان کے ذہن میں یہ یکطرفہ پہلو رہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ عدم برداشت کے جو مظاہرے ہو رہے ہیں ان کے مقابلہ میں پاکستان کی رواداری کو نمایاں کیا جائے کہ پاکستانی حکومت کس طرح ہندوؤں کی خوشی میں برابر کی شریک ہے ۔ لیکن یہ پہلو ان کی نظر سے اوجھل ہوگیا کہ دیوالی کے ساتھ بہت سے عقائد اورتصورات وابستہ ہیں جن کی بنیاد،دیویوں اوردیوتاؤں کے مشرکانہ عقیدوں پر ہے اور اس طرف بھی ان کی توجہ نہ گئی کہ دیوالی میں شریک ہوکر کیک کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس کا پس منظر کیاہے ؟
دنیا کے عام رواج کے مطابق عموماً کیک کاٹنے کی رسم کسی کے یوم پیدائش کے موقع پر ادا کی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ دیوالی کے موقع پر کس کا یوم پیدائش منایا جاتاہے؟ بہت سے ہندوؤں کے عقیدے میں دولت اور خوشحالی کی دیوی لکشمی بھی دیوالی کے پہلے دن پیدا ہوئی تھی اورصحت وشفاکا دیوتا دھن ونتری کا بھی یوم پیدائش یہی ہے ( وکی پیڈیا ) ۔ چنانچہ دیوالی کے دنوں میں لکشمی کے بت کی پوجا دیوالی کی تقریب کا ایک اہم حصہ ہے ۔ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے وہ کیک کاٹیں ۔ یا دئیے جلائیں یہ ان کے مذہب کا تقاضا ہے لیکن جو مسلمان توحید کا عقیدہ رکھتا ہواور لاالہ الا اللہ پر ایمان ا س کی شناخت کا لازمی حصہ ہو اس کے لیے اس عقیدے کے عملی مظاہرےکاحصہ بننا رواداری نہیں۔ مداہنت اور اپنے عقیدے کی کمزوری کا اظہار ہے ۔ خاص طور پر ملک کے وزیراعظم کا بر سر عام قول وعمل صرف ان کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پوری قول کی طرف منسوب ہوتاہے اس لیے اس میں تمام پہلوؤں کی رعایت اور مختلف جہتوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ضروری ہے ۔ وطن کے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ، حسن سلوک اور ان کی باعزت اور آرام دہ زندگی کا خیال رکھنا ضروری ہے اور مستحسن ہے لیکن ہر چیز کی کچھ حدود ہوتی ہیں ان حدود سے آگے نکلنے ہی سے انتہا پسندی کی قلمروشروعات ہوتی ہے ۔ غیر مسلموں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا ۔ یا ان کے مذہب پر عمل کر نے میں رکاوٹ ڈالنا یقیناً گناہ اور قابل مذمت ہے لیکن کسی مسلمان کا ان کے عقیدوں پر مبنی مذہبی رسوم میں شریک ہونا بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ اعتدال کا راستہ افراط وتفریط کی انتہاؤں کےدرمیان سے گزرتا ہے ۔ ” مفتی تقی عثمانی صاحب کی مندرجہ بالا تحریر مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کرتی ہے کہ کرسمس ہو یا کوئی کسی کسی اور مذہب کا تہواراس میں شرکت کے لیے مسلمانوں کے لیے کیا حدود وقیود ہیں ۔