میرے بندے! ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے اگر تو میری چاہت پر اپنی چاہت کو قربان کردے تو میں تیری چاہت میں تیری کفایت کروں گا اور ہوگا وہی جو میں چاہوں گا۔ اور اگر تو میری چاہت پر اپنی چاہت کو قربان نہ کرے‘ تو میں تم کو تیری چاہت میں تھکا دونگا اور ہوگا وہی جو میں چاہوں گا“۔(نوادر الاصول للحکیم الترمذی: ص:۱۶۱، ۴۳۳) ( المرقاة‘ شرح المشکوٰة‘ للعلا مۃ علی القاری‘ ۸/۶۲‘ باب اسماء اللہ تعالی‘ و۸/۲۰۰ باب الاستغفار) ( تفسیرروح البیان‘ لإسماعیل حقی بن مصطفی الصوفی الحنفی:۶/۶۸‘۲۱)
اس کی کوئی اصل نہیں (بے سند) : جتنی کتب میں یہ حدیث درج ہے ان میں سے کسی میں بھی اس حدیث کی سند درج نہیں ہے۔ کسی کتاب میں اس حدیث میں اللہ اپنے بندے سے فرماتا ہے کسی میں ابن آدم سے ، کسی میں اپنے بعض انبیاء سے کسی میں داود علیہ السلام سے تو کسی میں موسی
علیہ السلام سے۔مذکورہ کتابوں کے حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس حدیث قدسی کی کوئی اصل وسند نہیں‘ لہذا جب تک اس حدیث قدسی کی مقبول سند کا علم نہیں ہوجاتا‘ ضروری ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے‘ تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر افتراء وکذب بیانی نہ ہو۔
یہ حدیث قدسی جن کتابوں میں ہے ان میں سب سے قدیم تالیف ”نوادر الأصول“ ہے بعد کی کتابوں میں یہ حدیث شاید اسی کتاب کے حوالہ سے آئی ہے۔”نوادر الاصول“ حکیم ترمذی کی تالیف ہے حکیم ترمذی کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ لگ جاتا ہوگا کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذی ہے جن کی کتاب ”الجامع السنن“ پڑھی پڑھائی جاتی ہے لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے اور حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے ان کا انتقال سن: ۲۸۵ھ اور ۲۹۰ھ کے درمیان ہوا ہے۔(ملاحظہ ہو:لسان المیزان ۷/۳۸۷ *