’’اگر آپ پیسے کمانے کے لیے بزنس کرتے ہیں تو پیسے کے لالچ میں آ کر بزنس ختم کر بیٹھیں گے اور اگر خدمتِ خلق کے لیے کاروبار کرتے ہیں تو اس نیکی کی وجہ سے بزنس کو عروج پر لاکھڑا کرتے ہیں۔‘‘ یہ بات ہنری کی زندگی کا تجربہ اور نچوڑ ہے جس نے ایک حقیقت کو آشکار کیا ہے اب ہم ہنری ہینز کی کہانی اس کی زبانی سنتے ہیں۔
جب میں آٹھ سال کا تھا، مجھے والدہ اپنے کھیت سے حاصل ہونے والی سبزیاں دیتی کہ محلے میں جا کر فروخت کرو۔ میں ان کے حکم کی تعمیل کرنے لگا۔ یہ ایک معمولی سا کام میری پوری زندگی پر چھا گیا اور میں ہمیشہ کے لیے ایک بزنس مین بن گیا۔ ہمارے کھیت میں مولی کی فصل بہت خوب ہوتی تھی، پہلے یہ فروخت کرتا رہا پھر والدہ مجھے اس کی چٹنی بنا کر دیتی کہ جا کر بیچ آؤ۔ یہ میری والدہ کی ایجاد تھی، جو بہت پسند کی جانے لگی۔ اس کی طلب میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اس کام کے لیے میں نے گھوڑا گاڑی استعمال کرنا شروع کر دی۔ شہر میں بھی اپنی پروڈکٹ ہفتے میں تین بار پہنچانے لگا۔ اس سے نہ صرف مجھے خاطر خواہ نفع ہوتا بلکہ میرے اوپر کاروبار کا شوق سوار ہوتا گیا۔
میرے والد برکس (اینٹوں) کا بزنس کرتے تھے۔ ان کے ساتھ مل کر باقاعدہ ایک بزنس پارٹنر کے طور پر کام کیا لیکن اس کاروبار میں مجھے مستقبل میں ترقی کے امکانات زیادہ روشن ہوتے نظر نہ آئے۔ ان کے بزنس سے کنارہ کش ہو کر اپنے کھیتوں میں سبزیاں کاشت کرنے لگا۔ 17 سال کی عمر میں ایک زمیندار بن چکا تھا۔ لوگ میرے کھیت سے ٹرک بھر بھر کے سبزیاں لے جاتے۔ اس سے میرے والدین بہت خوش تھے۔ میرے والدین مذہبی پس منظر رکھتے تھے تو دنیاوی تعلیم کے حوالے سے بھی غافل نہیں تھے۔ ان کے مطابق بغیر علم کے کوئی بھی کام کرنا اپنے آپ کو خسارے اور ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ میرا ذہن بزنس میں خوب چلنے لگا اور میرا شوق دیکھ کر والدین نے مجھے بزنس کالج میں تعلیم دلوائی۔ اس تعلیم سے میری کاروباری صلاحیتیں مزید نکھر آئیں۔ اب میں سبزیوں کو خام مال کے طور پر بیچنے کے بجائے، انہیں دھو اور صاف ستھرا کر کے پیکنگ کرتا اور بیچتا۔ اس سے آمدنی دگنا ہو گئی۔
1869ء میں ایک دوست کے ساتھ مل کر ہینز نوبل اینڈ کمپنی کے نام سے کمپنی کی بنیاد رکھی اور اسی سال پہلی پروڈکٹ ’’ہارس ریڈشن‘‘ فروخت کرنا شروع کر دی۔ یہ بزنس دو تین سال ہی چلا پھر بند ہو گیا۔ وجہ یہ ہوئی مولی کی قیمت بہت زیادہ گر گئی۔ ہماری پروڈکٹ ہی اسی سے تیار ہوتی تھی۔ ہمارا بزنس نقصان پہ نقصان کھانے لگا۔ یہ کمپنی بند ہو گئی لیکن میرا جذبہ اور شوق ٹھنڈا نہ ہوا۔ جلد ہی میں نے اپنے کزن فریڈیرک کے ساتھ مل کر ایک نئی کمپنی F&J Heinz company کا آغاز کر دیا۔ یہاں ہم اپنی پروڈکٹ میں ورائٹی لائے۔ پھر ہماری ترقی کا سفر شروع ہو گیا۔ 1869ء میں ایک شوز کمپنی کے 21 اسٹائل دیکھ کر میں نے اپنی پروڈکٹ کی پیکنگ میں 57 قسم کے نئے انداز پیدا کیے۔ اس طرح پروڈکٹ کی فروخت میں ایک نئی جان آگئی۔ بزنس کے پھیلنے سے کمپنی کے حجم میں اضافہ ہوتا گیا۔ ملازمین کی تعداد بڑھنے لگی۔ مولی، گاجر اور ٹماٹر وغیرہ کے حصول کے لیے مزید زمین خریدی۔ جب آپ اپنی پروڈکٹ کے لیے کسی سے خام مال خریدتے ہیں، یہ آپ کو مہنگا پڑ جاتا ہے۔ اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو بہر صورت اپنی پروڈکٹ تیار کرنے کے لیے خود خام مال تیار کریں۔ اس طرح آپ کو دگنا چوگنا منافع حاصل ہو گا۔
میری کامیابی میں قدرت کا ہاتھ ہے لیکن اس میں چند چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ایک چیز صفائی ستھرائی ہے جس کو میں نے رواج دیا۔ پروڈکٹ کی تیاری سے لے کر پیکنگ کے مراحل تک صفائی کا خوب اہتمام کیا جاتا اور میں اپنی آئندہ نسل سے اسی کی امید کرتا ہوں۔
دوسری چیز ملازمین کے ساتھ گھل مل کر رہنا ہے۔ انہیں خوشی کے مواقع پر تحائف وغیرہ دیتا۔ جب ان میں سے کوئی بیمار یا گھریلو پریشانی کا شکار ہوتا ہے اس کے گھر جا کر خیریت دریافت کرتا۔ ملازمین کا نام لے کر پکارتا۔ جب بھی میری کمپنی میں نیا ملازم آتا، اس کے چہرے سے پہچان جاتا کہ یہ نیا ملازم ہے۔
تیسری چیز جو بہت اہم ہے جس کا عام طور پر خیال نہیں رکھا جاتا۔ کاروباری حضرات لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ بزنس میں اس چیز کا خیال رکھا کہ انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ یہ میرا مقصد نہیں ہے جب بزنس اچھا کریں گے تو پیسہ خود بخود آئے گا۔ پیسہ تو چور ڈاکوؤں کے پاس بھی ہوتا ہے۔
چوتھی چیز عمدہ کردار ہے جس کو میں اہمیت دیتا ہوں۔ اگر ایک شخص کے پاس کردار کی دولت 50 اور صلاحیت 100 فیصد ہے اور دوسرے کے پاس کردار 100 اور صلاحیت 50 فیصد ہے تو میں دوسرے شخص کو ترجیح دوں گا کیونکہ یہ اپنے کردار سے اپنی صلاحیت کی کمی پوری کر سکتا ہے۔
یہ کہانی ایک غیرمسلم کی ہے اور آج اس کی کمپنی Heinz کی مثال بزنس کی کتابوں میں دی جاتی ہے۔ جن خوبیوں کو اپنا کر یہ اس مقام تک پہنچا، وہ ساری کی ساری دین اسلام کی تعلیمات ہیں جن سے ہم غافل ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارا کاروبار ترقی نہیں کرتا۔ کبھی قسمت کا رونا روتے ہیں۔ مشکل حالات کی دہائی دیتے ہیں۔ سرمایے کی قلت کاگلہ رہتا ہے۔ یہ شکایتیں بے جا ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں دین اسلام کی روشنی دی ہے جو ہر شعبہ زندگی میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ کیوں نہ ہم اسے اپنا کر دنیا و آخرت کی کامیابی سمیٹتے چلے جائیں۔
انعام اللہ بھکروی