ایک آبی مخلوق سے بنی چیز اوئسٹر ساس کا حکم

فتویٰ نمبر:5043

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

کیا اوئسٹر ساس (oyster sauce) کا استعمال جائز ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته!

سب سے پہلے ایک بات سمجھنے کی ہے:

احناف کے نزدیک  سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے، مچھلی کے علاوہ کسی اور سمندری جانور کا کھانا جائز نہیں ہے۔

“احکام القرآن” للجصاص میں ہے :

” الأولیٰ: قوله تعالیٰ :

﴿ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ﴾

(سورة المائدة: 96)

هذا حکم بتحلیل صید البحر، وهو کل ما صید من حيتانه …

الثالثة: قال أبو حنیفة: “لایؤکل شيء من حیوان البحر إلا السمك” وهو قول الثوری في روایة أبي إسحاق الفزاري عنه”.  ( 3/670)

“الدرمع الرد” میں ہے : 

“(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولداً في ماء نجس ولو طافيةً مجروحةً، وهبانية، (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه. (قوله: ولو متولداً في ماء نجس) فلا بأس بأكلها للحال؛ لحله بالنص”.

(6/306۔307 کتاب الذبائح ط : سعید ) 

“بدائع الصنائع” میں ہے :

” أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصةً؛ فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وهذا قول أصحابنا – رضي الله عنهم-“.

 ( 5/35 کتابالذبائح والصیود ط :سعید) 

پس سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی حلال ہے۔

اب آتے ہیں سوال کی طرف۔ اوئسٹر ساس حلال نہیں ہے کیونکہ اوئسٹر ساس اوئسٹر سے (سیپ کے اندر پائے جانے والے کیڑے) کے عرق، نچوڑ سے بنتا ہے۔

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 7/11/1440

عیسوی تاریخ: 10/7/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں