سوال:قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کا قول اللہ نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے” وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (31سورۃ مریم) اس میں حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی،جس سے ایسا لگتا ہے ان پر زکوۃ واجب تھی۔اسکا کیا مطلب ہے جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام پر تو زکوٰۃ فرض ہی نہیں تھی۔
الجواب بعون الملک الوہاب
انبیاء علیہم السلام پر زکوۃ فرض نہیں تھی، اس پر علامہ شامی نے اجماع نقل کیا ہے۔جہاں تک حضرت عیسی علیہ السلام کے اس قول کا تعلق ہے تو مفسرین اس کے کئی مطالب بیان کرتے ہیں۔مثلا:
الف) اس سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت میں امت کے لئے زكوة کی فرضيت ہے۔
(بیان القرآن مولانا اشرف علی تھانوں رحمہ اللہ :ج/2″,ص:443)
ب) اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ عیسی علیہ السلام امت محمدی بن کر آخر زمانہ میں آئیں گے اس وقت ان پر سارے احکامات شریعت محمدیہ کے عائد ہوں گے اور اس شریعت میں نماز اور زکوٰۃ کا حکم ہے۔
ج) تفسير سعدي ميں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے حقوق اللہ کی ادائیگی کا حکم دیا جس میں سے افضل نماز ہے اور بندوں کے حقوق کو قائم کروں جس میں سے افضل زكوة ہے پس میں اپنے رب کی وصیت پر عمل کرنے والا ہوں اور اس کو اپنی امت میں نافذ کروانے والا ہوں۔
” *أی اوصاني بالقيام بحقوقه التي من اعظمها الصلاة و حقوق عباده التي اجلها الزكوة مدة حياتي فانا ممتثل لوصية ربي عامل عليها منفذ لها “
(تفسير سعدي)*
د) زکوٰۃ سے مراد تزکیہ نفس بھی ہوسکتا ہے یا تبلیغ زکوٰۃ بھی ہوسکتا ہے
” وأما قوله تعالى: {وأوصاني بالصلاة والزكاة ما دمت حياً} [مريم: 31] فالمراد بها زكاة النفس من الرذائل التي لاتليق بمقامات الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، أو أوصاني بتبليغ الزكاة، وليس المراد زكاة الفطر؛ لأن مقتضى جعل عدم الزكاة من خصوصياتهم أنه لا فرق بين زكاة المال والبدن، كذا أفاده الشبراملسي
*و قيل المراد بالصلاة الدعاء و بالزكاة تطهير النفس عن الرذائل “
(تفسير روح المعاني)
ط) زکوٰۃ کے دو معانی ہو سکتے ہیں ایک مال کی زکوٰۃ اور دوسرے معنی جسم کو گندگی سے پاک کرنے کے، پس یہاں یہ ہی معنی ہوئے کہ “مجھے گناہوں کو چھوڑنے اور معاصی سے بچنے کی وصیت کی” آگے ما دمت حیا سے زکوٰۃ کے یہ معنی زیادہ واضح ہیں کہ جب تک زندہ رہوں گناہوں سے اپنے بدن کو پاک رکھوں کیوں کہ عیسی علیہ السلام نے اگلے دن کے لیے بھی مال جمع نہیں فرمایا کہ اس پر زکوۃ فرض ہوتی۔*
“{ وأوْصَانِـي بـالصَّلاةِ وَالزَّكاةِ } يقول: وفـي الزكاة معنـيان: أحدهما: زكاة الأموال أن يؤدّيها. والآخر: تطهير الـجسد من دنس الذنوب فـيكون معناه: وأوصانـي بترك الذنوب واجتناب الـمعاصي. وقوله: { ما دُمْتُ حَيًّا } يقول: ما كنت حيا فـي الدنـيا موجودا، وهذا يبـين عن أن معنى الزكاة فـي هذا الـموضع: تطهير البدن من الذنوب، لأن الذي يوصف به عيسى صلوات الله وسلامه علـيه أنه كان لا يدّخر شيئا لغد، فتـجب علـيه زكاة الـمال، إلا أن تكون الزكاة التـي كانت فرضت علـيه الصدقة بكلّ ما فضل عن قوته، فـيكون ذلك وجها صحيحا. “
(تفسير جامع البيان في تفسير القرآن)
فقط- واللہ اعلم باالصواب