سوال:- ۸؍ذو الحجہ کو کسی آدمی کی نماز چھوٹ جائے، پھر وہ اس کی قضاء ایام تشریق ( ۹؍ ذوالحجہ ) میں کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ نماز کے بعد تکبیر تشریق کہے گا اور اسی طرح اگر کسی کی نماز ایام تشریق میں چھوٹ جائے پھر وہ ان ایام کے بعد قضاء کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ بھی تکبیر تشریق کہے گا ، وضاحت فرماکر مشکور فرمائیں ۔ (زیاد احمد ، دہلی )
فتویٰ نمبر:262
جواب : – تکبیر تشریق کا محل وہ فرض نمازیں ہیں ، جو ۹؍ سے ۱۳؍ ذوالحجہ میں ادا کی جائیں ، جو نمازیں پہلے فرض ہوچکی تھیں اور بطور قضاء ایامِ تشریق میں پڑھی جائیں ، وہ تکبیر کا محل نہیں ہیں ، اسی طرح ایام تشریق میں اگر کوئی نماز قضاء ہوگئی اور ۱۳؍ذوالحجہ کے بعد ادا کی گئی تو ایام تشریق کے گزرجانے کی وجہ سے وہ بھی اس کا محل نہیں ہیں اور ان میں بھی تکبیر تشریق نہیں کہی جائے گی ؛ البتہ ایام تشریق کی کوئی نماز چھوٹ گئی اور پھر ایام تشریق ہی کے اگلے دنوں میں اس کی قضاء کی جائے تو اس میں تکبیر تشریق کہی جائے گی ؛ کیوںکہ وہ اسی سال کے ایام تشریق کی نماز ہے اور ایامِ تشریق ہی میں ادا کی جارہی ہے ، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے : ’’ … فا تتہ أیام العید قضاھا فی أیام العید من عامہ ذلک ، ولا یکبر إلا فی الأخیر فقط (من عامہ) أی حال کون أیام العید التی تقضی فیھا الصلاۃ التی فاتت فی أیام العید من عام الفوات احترز بہ عن الثالثۃ (لقیام وقتہ) علۃ لوجوب تکبیر التشریق فی القضاء المذکور‘‘ ۔ (ردالمحتار :۳؍۳۶ ، نیز دیکھئے : فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۷۶۱)