عورتوں کا نمازجنازہ پڑھنا

فتویٰ نمبر:450

سوال:مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا عورتیں نمازجنازہ پڑھ سکتی ہیں ؟

سائلہ : عائشہ خان اسلام آباد۔

الجواب حامدةومصلية:

اس مسئلے کی کئی صورتیں ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ اگر ایسی جگہ ہے کہ جہاں صرف مرد ہی آتے ہیں تو اس کا حکم یہ ہے کہ 

وہاں نماز جنازہ مردوں کو ہی پڑھنا چاہیے عورتوں کو نہیں. تاہم اگر جماعت کے پیچھے کھڑی ہوجائیں تو نماز ان کی بھی ہو جائے گی لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اگر مردوں کے محاذات میں کھڑی ہوجائیں تو مرد کی نمازصحیح ہوجائے گی کیونکہ نماز جنازہ میں عورت کا محاذات میں کھڑا ہونا مرد کے لیے نماز فاسد ہونے کا سبب نہیں۔(احسن الفتاوی:۴/ ۲۲۶)

دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی​ ایسی جگہ ہے جہاں مرد ہیں ہی نہیں صرف عورتیں عورتیں ہیں تو اس صورت میں عورتیں نماز جنازہ بلا کراہت ادا کرسکتی ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ انفرادی طور پر پڑھیں۔ اس طرح کہ سب ایک ساتھ اپنی نمازیں شروع کریں ،ایک کے بعد ایک نہ شروع کرے۔ 

نماز جنازہ میں جماعت واجب نہیں ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ الگ الگ پڑھیں ،اور جماعت بھی بلا کراہت جائزہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ امام عورت صف کے بیچ میں کھڑی ہو ,مرد کی طرح آگےنہ کھڑی ہو ۔

تیسری صورت یہ ممکن ہے کہ ایسی جگہ ہے جہاں مرد وخواتین دونوں نماز پڑھنے آتے ہوں جیسے کہ حرمین شریفین میں اوراس وقت جنازہ حاضر ہوجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ عورتیں​ بھی بلا کراہت نماز جنازہ پڑھ سکتی ہیں ۔ 

چوتھی صورت یہ ہے کہ آگر ایسی جگہ ہے کہ مرد ہی آتے ہیں خواتین عام طور پر نہیں آتیں لیکن خواتین کسی وجہ سے باہر نکل آئیں تو اس صورت میں بھی بلا کراہت خواتین نماز جنازہ پڑھ سکتی ہیں۔

ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ عورت امام ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ عورت مردوں کی امامت تو نہیں کراسکتی،لیکن اگر امام بنی تو اس صورت میں خود اس عورت کی نماز تو صحیح ہوجائے گی اور نماز جنازہ کا فرض بھی ادا ہوجائے گا کیونکہ نماز جنازہ میں جماعت واجب نہیں اور مرد یا عورت میں سے کوئی ایک بھی ادا کرلے تو فرضیت ساقط ہوجاتی ہے البتہ عورت کے پیچھے مردوں کی نماز ادا نہیں ہوگی۔

“ولا حق للنساء فی الصلاة علی المیت”(ھندیة: ١/ ١٦٣،طبع رشیدیہ) 

“الصلاة علی الجنازةفرض کفایة اذا قام بہ البعض واحدا کان اوجماعة ،ذکرا کان اوانثی سقط عن الباقین ۔ (عالمگیری:۱/ ۱۶۳،کتاب الصلاة,الباب الحادي والعشرون فی الجنائز)

“ویکرہ حضورھن فی الجماعۃ”(الدر المختار) 

“واعلم ان جماعتھن 

لا تکرہ فی صلاة الجنازة”(الدر المختار)

کما تستفاد من العبارۃ الآتیۃ: کما لو أمّت امرأۃ ولو أمۃ لسقوط فرضہا بواحد۔ (درمختار) أي بشخص واحد رجلا کان أو امرأۃ۔ (الدر المختار علی الرد المحتار / مطلب في صلاۃ الجنازۃ ۳؍۱۰۴ زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

اہلیہ مفتی فیصل احمد 

صفہ آن لائن کورسز

۲۷جمادی الاول ۱۴۳۹ھ

14/2/2018

اپنا تبصرہ بھیجیں