کیاعورت تفریح کے لیے باہر جاسکتی ہے

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:32

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں :

قرآن کریم میں ارشاد ہے :

وقرن فی بیوتکن “

1۔کیا عورتیں تفریح کے لیے جاسکتی ہیں ؟

2۔عورتوں کا بازار جانا کیسا ہے ؟ نیز اگر گھر کے مرد نہ جاتے ہوں تو عورتیں بازار جاسکتی ہیں ؟

3۔ اگر کوئی شخص نماز کی دوسری رکعت میں وہ سورۃ پڑھ لے جو پہلی رکعت والی سورۃ سے پہلے آتی ہو تو یہ مکروہ ہے اگر بھولے سے ایسا ہو تو کیا حکم ہے ؟

جواب: 

1۔اسلام نے عورت کو خاتون خانہ اور گھر کی ملکہ بنایا ہے اور اس کی عفت وعصمت کی حجاظت ، شیطانی آنکھوں سے بچاؤ اور دیگر کئی وسیع البنیاد مصالح کی بنا پر اسے گھر کے آنگن میں ہی رہنے ک احکم عطا کیا ہے ۔ لیکن ساتھ میں اپنی وسعت نظر اور انسانی ضرورتوں کی بنا پر مواقع ضرورت میں، بودر ضرورت ، حجاب کے ساتھ باہر نکلنے کی بھی اجازت دی ہے ۔ دماغی تفریح اور نشاط کے لیے باہر نکلنا بھی ایک گونہ ضرورت ہے ۔ چنانچہ حضور اقدس ﷺ نے حجرہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہو کر ، جسد مبارک کی اوٹ میں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حبشیوں کے کرتب از خود دکھائے ہیں ۔ جس سے تفریح کی اہمیت وضرورت اجاگر ہوتی ہے ۔

1۔  عورت، سر سے پاؤں تک چادر یا برقعے میں اس طرح مستور ہو کہ راستہ دیکھنے کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی ہو ۔

2۔ لباس ، سادہ پہلنے ۔ پر کشش اور شوخ قسم کے لباس سےا جتناب کرے ۔

3۔   خوشبو نہ لگائے ۔

4۔  بجنے والا زیور نہ پہنے 

5۔  مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو۔

6۔ بلاضرورت کسی اجنبی سے بات نہ کرے ۔

7 ۔ وہ جگہ پر امن ہو، کسی قسم کے فتنے وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو ۔

8 ۔ تفریح کے لیے اگر شرعی مسافت سفر یعنی 77 کلو میٹر 2485 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ آگے جانا ہو تو محرم بھی ساتھ ہو ۔

9۔ اسے معمول نہ بنایاجائے ، بلکہ بقدر ضرورت پر ہی اکتفا کیاجائے ۔

ان تمام شرائط کی رعایت از حد ضروری ہے۔ بصورت دیگر باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوگی ۔

1۔ عن عائشۃ قالت کنت العب بالبنات عند النبی ﷺ ، وکان لی صواحب یلعن معی ، فکان رسول اللہ ﷺ اذا دخل ینقمعن منہ ،فیسربھن الی، فیلعبن معی ۔ ” متفق علیہ ۔ ( مشکوۃ :280 باب عشر ۃ النساء ) 

2۔وعنھا قالت : ” واللہ ! لقد رایت النبی ﷺ یقوم علی باب حجرتی ، والحبشۃ یلعبون بالحراب فی المسجد ، ورسول اللہ ﷺ یستر نی بردائہ لانظر الی لعبھم بین اذنہ وعاتقہ ۔ ثم یقوم من اجلی ، حتی اکون انا التی انصرف ، فاقدرواقدر الجاریۃ الحدیثۃ السن ، الحریصۃ علی اللھو ” متفق علیہ ( ایضا) 

3″ وعنھا انھا کانت مع رسول اللہ ﷺ فی سفر ، قالت : ” فسابقتہ ، فسبقتہ علی رجلتی ، فلما حملت اللحم ، سابقتہ ،فسبقنی ، قال : ” ھذہ ، بتلک السبقۃ ۔” ( ایضاً :282 قدیمی ) 

2۔ عورتوں کے لیے اصل حکم یہی ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری میں رہیں اور بلاضرورت باہر نہ نکلیں ، بازار یا دوکانوں سے سودا سلف لانا نیز گھر کی دیگر ضروری اشیاء مہیا کرنا مردوں کی ذمہ داری ہے ۔جیسے ذمہ داری اور شرعی حکم سمجھ کر پورا کرنا ان پر لازم ہے، ورنہ گناہ گار ہوں گے ۔

لیکن اس کے باوجود اگر وہ یہ ذمہ داری نہ نبھاتے ہوں تو عورتوں کابازار نکلنے کا جواز ضرورت شدیدہ یا متوسط درجہ کی ضرورت پر موقوف ہے  اگر واقعی کوئی شدید یا متوسط درجہ کی ضرورت درپیش ہو تو جواب کی شق نمبر ایک میں بیان کردہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے بازار نکلنے کی گنجائش ہے ورنہ نہیں ۔

فی الدر المختار : ” لانہ علیہ الصلاۃ والسلام قسم الاعمال بین علی وفاطمۃ، فعل اعمال الخارج علی علی رضی اللہ عنہ والداخل علی فاطمۃ رضی اللہ عنہا، مع انھا سیدۃ نساء العالمین، بحر ۔ ” ( شامیہ :3/579س) وانظر : امدادالفتاویٰ :4/196،197 مکتبہ دارالعلوم کراچی

وانظر : خیر الفتاوی :1/237۔238 مکتبہ امدادیہ 

وفی صحیح البخاری : قال رسول اللہ ﷺ : وانہ قد اذن لکن ان تخرجن لحاجتکن ۔” (3/306 دارالکتب العلمیہ )

3۔بھولے سے ہو تو کراہت نہیں رہتی ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں