طلاق کے 80 فیصد واقعات کے پیچے ہاتھ ایک عورت کا ہی ہوتاہے ۔ ساس بہو جب تک اپنا اپنا مقام نہ جانیں گی تب تک عورت کے ہاتھوں عورت ذلیل ہوتی رہے گی
شوہر اگر بیوی کو مارے یا گھر سے نکالے تو اسمیں محرک ساس اور نندیں ہوتی ہیں۔
جب ماں اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کے بہو کے ان کئیے ظلموں کی داستان بیٹے کو سنائے گی تو بیٹے کا ہاتھ تو ظالم پہ اٹھے گا ہی ۔
یہاں مرد( بیٹا) نے ایک عورت (ماں) پہ ہوئے ظلموں کا بدلہ لیا۔ مگر ظالم پھر بھی مرد
جب بہن بھائی کو بھابھی کے (ناکردہ) ظلموں کی داستان سنائے گی تو بھائی بہن کے بہتے آنسوؤں کا مداوا کرے تو ظالم پھر مرد ہی کہلائے گا۔
جب بیوی شوہر کے سامنے ساس، نند کے ( ناکردہ) ظلموں کی داستاں سنائے گی آنسو بہائے گی اور شوہر اس پہ بھروسہ کر کے گھر علیحدہ کرلیتاہے تو الزام پھر مرد پہ آتا ہے۔
تمام داستانوں کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کریں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا عورت کو مرد سے نہیں عورت کو عورت سے تحفظ کی ضرورت ہے۔
مرد بیچارہ تو رشتے نبھانے کی کوشش کرتاہے.
کبھی ایک شوہر کی حیثیت سے ۔
کبھی بھائی۔
کبھی بیٹے کی حیثیت سے۔