عورت کی کمائی میں برکت نہیں والی کی حقیقت

سوال:ایک حدیث کا مفھوم بیان کیا جاتا ہےکہ عورت کی کماٸی میں برکت نہیں ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث کی رو سے بہترین عورت وہ ہے جو اپنا مال اپنے شوھر پہ خرٍچ کرے۔

ایک اور جگہ فرمایا گیا کہ شادی کےبعد عورت کے مال کا تصرف مرد کے ہاتھ آجاتا ہے،یعنی مرد کی اجازت کےعورت اپنا مال بھی خرچ نہیں کر سکتی۔

1) تو ان احادیث میں تطبیق کیسے ہوگی؟

2) نیز مرد کے ذمے جو نان و نفقہ ہے وہ بلکل ادا نہ کرے تو گھر اور بچوں کے لیے عورت کماۓ تب بھی اسکی کماٸی بے برکت ہے؟

3) نیز شوھر بیوی کی کماٸی یا اسکی خالص جاٸیداد بیوی کو بتاۓ بغیر یا اسکی اجازت کے بغیر اسکے منع کرنے کے باوجود خرچ کرسکتا ہے؟یا کرلے تو گناہ گار ہوگا؟

4) اور کیا اگر شوھر کے نان نفقہ کا نہ دینے پر بیوی اپنا مال جاٸداد یا کماٸی شوھر سے چھپا سکتی ہے؟ گناہگار تو نہ ہوگی؟

الجواب باسم ملھم الصواب

1،2) آپ نے جس روایت کا ذکر کیا” کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں” تلاش کے باوجود ایسی کوئی روایت ہمیں نہیں ملی، بلکہ اس کے برعکس عورت کی کمائی کے متعلق ایسی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی کمائی (اگر شرعی شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے ہوں تو وہ )جائز ہے. چنانچہ مشہور ہے کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا تجارت کیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا صانعہ تھیں۔نیز کئی صحابیات کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کمائی کرتی تھیں۔رضی اللہ عنھن اجمعین۔

جہاں تک آپ کا یہ فرمانا ہے کہ عورت کا بہترین مال وہ ہے جو اپنے شوہر پر خرچ کرے۔اس مفہوم کی ایک روایت حضرت زینب رضی اللہ عنھا زوجہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر اور یتیم بچوں پر اپنے مال میں سے خرچ کرنے کے متعلق سوال کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں آپ کے لیے دوہرا اجر ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شادی کے بعد عورت کی کمائی اور مال شوہر کے ہاتھ میں آجاتی ہے اور وہ شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتی۔ اس سے مراد وہ مال نہیں جو عورت کا اپنا ذاتی ہو بلکہ اس سے مراد شوہر کا وہ مال ہے جو عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اپنے مال کی وہ مالک اور متصرفہ ہے، وہ جیسے چاہے خرچ کرنے کی مجاز ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کمائی میں برکت کا تعلق اس بات سے نہیں کہ یہ عورت کی کمائی ہے یا مرد کی بلکہ اس کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ذریعہ آمدن حلال ہو اور جائز طریقے سے مال کمایا گیاہو تو وہ مال بابرکت اور حلال ہے۔

3) عورت اپنے مال کی خود مالک ہے ۔شوہر کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا مال خرچ کرے۔ اگر وہ خرچ کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔

4) عورت اپنے مال اور کمائی کی خود مختار ہے شوہر کو بتائے یا اس سے چھپائے۔شرعا اس پر کوئی پابندی نہیں۔اور اگر وہ شوہر سے چھپاتی ہے تو وہ گناہ گار نہ ہوگی۔

====================

{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ} (النساء : ۳۲)

وعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، ومَهْرِ الْبَغِيِّ، وحُلْوَانِ الْكَاهِنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

(15887:كتاب: تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف)

حديث: «يا معشر النساء! تصدقن ولو من حليكن…» الحديث- بطوله. وفيه: وكانت تنفق على عبد الله وأيتام في حجرها. وفيه: لها أجران: أجر القرابة، وأجر الصدقة. خ في الزكاة (48: 1)

“ما جاء في وصف حال أم المؤمنين زينب بنت جحش، حيث كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لزوجاته: أسرعكن بي لحوقا أطولكن يدا ـ فماتت زينب أولا، قالت عائشة: وإنما كان ذلك لأنها كانت صناعا تعين بما تصنع في سبيل الله ـ”

( قال الهيثمي في مجمع الزوائد: رواه البزار، ورجاله رجال الصحيح. اهـ.)

“وفي رواية ابن سعد في الطبقات الكبرى قالت: وكانت زينب امرأة صناع اليد، فكانت تدبغ وتخرز وتتصدق في سبيل الله.

وكذلك حال امرأة عبد الله بن مسعود: فقد كانت امرأة صناعا، وكانت تبيع وتتصدق. رواه أحمد وابن ماجه وغيرهما، وصححه الألباني والأرنؤوط.

لایحل مال امریٔ مسلم الا عن طیب نفسہ

(رواہ البخاری)

ما في ’’ درر الحکام ‘‘ : ’’ لا یجوز لأحد أن یأخذ مال أحد بلا سبب شرعي‘‘ ۔

ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : قولہ تعالی : {یآیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوآ أموالکم بینکم بالباطل إلا أن تکون تجارۃ عن تراضٍ منکم } ۔ (سورۃ النساء : ۲۹)

ما في ’’ البحر المحیط لأبي حیان الغرناطي ‘‘ : قال أبوحیان الغرناطي : والباطل ہوکل طریق لم تبحہ الشریعۃ ، فیدخل فیہ السرقۃ ، والخیانۃ ، والغصب ، والقمار ، وعقود الربوا، وأثمان البیاعات الفاسدۃ ۔ (۳/۳۲۲)

اپنا تبصرہ بھیجیں