سوال: کیا عورت حالت حیض میں قرآن پڑھ سکتی ہے بغیر چھوئے موبائل سے؟
جواب :ایسی حالت میں تلاوت کسی طرح جائز نہیں ہے چاہے قرآن سے ہو یا موبائل سے دیکھ کر ہو یا زبانی مزید تفصیل درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں ۔ البتہ جو آیات دعا کے مضمون پر مشتمل ہوں یا حمد و ثنا ء کے مضمون پر مشتمل ہوں انہیں دعا یا حمد و ثنا ء کی نیت سے پڑھنا جائز ہے تلاوت کی نیت سے پڑھنا ان آیات کو بھی جائز نہیں ۔ اور اگر کسی کیلئے کو حمد و ثناء اور دعاپر مشتمل آیات اور دوسری آیات میں فرق کرنا دشوار ہو تووہ حیض و نفاس یا جنابت کی حالت میں قرآنی آیات پڑھنے سے ہی احتراز کرے ۔
لہذا حیض کی حالت میں آیت الکرسی ، سورۃ فاتحہ، سورۃ الاخلاص سورۃ الفلق اور سورۃالناس حمد وثناء وظیفہ اور دعا کی نیت سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ ان سورتوں کے مضامین حمد وثناء اور دعا کے ہیں ۔ لیکن سورۃ الکافرون کا مضمون چونکہ حمد و ثناء یا دعاپر مشتمل نہیں ہے اس لئے سورۂ کافرون کو حیض کی حالت میں کسی بھی نیت سے پڑھنا جائز نہیں۔
تنبیہ : حضراتِ فقہاءِ کرام ؒ کی عبارات کی روشنی میں حیض کی حالت میں معوذتین ، سورۂ اخلاص ، سورہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑھنے کا اصولی حکم وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ اس حکم کا مدار آیات کے مضمون اور نیت پر ہے کہ اگر آیات کا مضمون دعا و ثناء والا ہو اور پڑھنے والے کی نیت بھی دعا و ثناء کی ہو توپڑھنا جائز ہے ورنہ نہیں ۔ اس فرق کو مدِ نظر رکھنا اور اس کے مطابق اپنی نیت کا استحضار کرنا اہلِ عرب کے لئے آسان ہے ۔ لیکن عجمی خواتین کے لئے آیات کے مضامین کا فرق کرنا اور اس کے مطابق اپنی نیت کا استحضار کرنا مشکل ہے ، کیونکہ عجمی خواتین ایک سے زائد آیات عام طورپرتلاوت ہی کی نیت سے پڑھتی ہیں اس لئے عجم کی جو خواتین اس تفصیل کو ملحوظ نہ رکھ سکیں ان کو حیض و نفاس کی حالت میں مذکورہ سورتیں اور آیۃ الکرسی پڑھنے سے بچنا چاہئے اسی میں احتیاط ہے ۔ ہاں جو خواتین آیات کے مضامین سے پوری طرح واقف ہوں اور پڑھتے ہوئے بآسانی دعا و ثناء کی نیت کا استحضاربھی کرسکیں ان کے لئے حمد و ثناء اور دعا کی نیت سے مذکورہ سوتیں پڑھنے کی گنجائش ہوگی ۔
=======================
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار – (1 / 29)
(و) يحرم به (تلاوة قرآن) ولو دون آية المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الاصح،حتى لو قصد بالفاتحة الثناء في الجنازة لم يكره إلا إذا قرأ المصلي قاصدا الثناء فإنها تجزيه لانها في محلها، فلا يتغير حكمها بقصده
=======================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 172)
(قوله: فلو قصد الدعاء) قال في العيون لأبي الليث: قرأ الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم يرد القراءة لا بأس به. وفي الغاية: أنه المختار واختاره الحلواني، لكن قال الهندواني: لا أفتي به وإن روي عن الإمام واستظهره في البحر تبعا للحلية في نحو الفاتحة؛ لأنه لم يزل قرآنا لفظا ومعنى معجزا متحدى به، بخلاف نحو – الحمد لله – ونازعه في النهر بأن كونه قرآنا في الأصل لا يمنع من إخراجه عن القرآنية بالقصد، نعم ظاهر التقييد بالآيات التي فيها معنى الدعاء يفهم أن ما ليس كذلك كسورة أبي لهب لا يؤثر فيها قصد غير القرآنية، لكن لم أر التصريح به في كلامهم. اهـ. مطلب يطلق الدعاء على ما يشمل الثناء أقول: وقد صرحوا بأن مفاهيم الكتب حجة، والظاهر أن المراد بالدعاء ما يشمل الثناء؛ لأن الفاتحة نصفها ثناء ونصفها الآخر دعاء، فقول الشارح أو الثناء من عطف الخاص على العام.
(قوله: أو افتتاح أمر) كقوله بسم الله لافتتاح العمل تبركا بدائع.
=======================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمه الله تعالي