عورت کا الگ گھر کا مطالبہ

فتویٰ نمبر:5083

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

لڑکی میکے آکر بیٹھ جائے اور شوہر الگ گھر لینے سے انکار کردے اور کہے کہ ماں باپ کو ہرگز نہیں چھوڑے گا تو ایسے میں لڑکی گناہگار تو نہیں ہوگی؟ جبکہ لڑکی سسرال جا کر بہت چڑچڑی ہو گئی ہے اور کہتی ہے کہ الگ گھر لے کر دو اور واپس نہیں آنا چاہتی،جبکہ شوہر ضد کرتا ہے کہ ماں باپ کو نہیں چھوڑے گا جبکہ وہ صاحب حیثیت ہے۔

لیکن ساتھ ہی شوہر کا کہنا ہے کہ اسی گھر میں کچن بنوادےگا،جبکہ ماضی میں لڑکی کو اپنے کمرے کا دروازا بند کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی،لڑکی اپنی ساس سے سخت بدظن ہے اور اسکا کہنا ہے کہ فسادات کچن بنانے سے بھی کم نہیں ہوں گے۔

الجواب حامدا ومصلیا

عائلی مسائل کو قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے اخلاقی اقدار کی روشنی میں حل کیا جائے تو یہ رشتے کامیاب رہتے ہیں اور ایمان والوں کو ترغیب بھی تقوی اور اعلی اخلاق ہی کی دی گئی ہے۔ ہر مسلمان کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی فکر کرے کیونکہ وہ جوابدہ بھی انہی کا ہے نہ کہ اپنے حقوق کی۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب اپنے فرائض سے لاپرواہی برتی جائے اور حقوق کا مطالبہ کیا جائے۔

جیسے بیوی پر لازم ہےکہ شوہر کے حقوق کا پاس رکھے اور چونکہ شوہر بیوی کی معاونت کے بغیر والدین کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کرسکتا جو اس پر واجب ہیں،لہذا بیوی شوہر کی معاون کے طور پر ان کی خدمت اور احترام کو اپنے اوپر لازم سمجھے،اسی طرح شوہر کے ذمے بھی بیوی کے حقوق اور اس کی دل جوئی لازم ہے اور شوہر کے والدین کو بھی چاہیے کہ بہو کو حقیقی بیٹی اور اپنی نسلوں کا امین سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ بہترین برتاؤ رکھیں اور اس سلسلے میں جانبین کو حقوق کے مطالبے کی بجائے اخلاق کریمانہ اور تقوی کی بنیاد پر معاملات کرنے چاہیے۔

سوال میں مذکور صورت میں بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے ساتھ تعلق کی بنا پر اور اسلامی احکامات کی رو سے جو بزرگوں کا مقام اور ان کی خدمت کا حکم ہے اس کی بنا پر اپنی ساس کی ہر بات کو اللہ کی خاطر برداشت کرلے اور ان کی ہر نصیحت یا کڑوی بات کو خندہ پیشانی سےپی جائے،جہاں تک بات ہے چڑچڑےپن کی تو وہ تب ہی آتا ہے جب انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی کام کرے۔ اللہ کی رضا اور شوہر کی محبت اور اس کی سعادت کے حصول کی نیت سے جب باتوں کو برداشت کرے گی تب امید ہے کے چڑچڑاپن بھی نہیں آئے گا ۔ یہ میاں بیوی دونوں کی عاقبت سنوار دینے والی اور ہمت کی بات ہے اور یہی ہمت اور حوصلہ بیوی کو لائق رشک بھی بنا دیتا ہے اور شوہر کو اس کا قدر دان بھی، اس خدمت اور صبر کی برکتوں کا مشاہدہ وہ خود اپنی آنکھوں سے کرے گی۔

تاہم اگر بیوی میں اتناحوصلہ نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے ساس کے سامنے مٹا دے اور صبر کرے تو شرعاً اس پر لازم نہیں کہ وہ سسرال میں ہی رہے بلکہ شریعت نے اسے اپنی الگ رہائش کا حق دیا ہے اور ایسی صورت میں روزانہ کی اذیت سے بہتر یہی ہے کہ الگ رہائش اختیار کر لی جائے مگر والدین کے ساتھ قطع تعلق کی نیت نہ ہو بلکہ یہ سوچ کر ہو کہ ہم سے جو اذیت انھیں پہنچ رہی ہے جو بے ادبی ہوتی ہے وہ نہ ہو یعنی خود اپنے آپ کو قصور وار سمجھیں والدین کو نہیں، ویسے بھی الگ گھر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ والدین کو چھوڑ دیا جائے ،بلکہ پہلے کی طرح اب بھی والدین کی خدمت و اطاعت اولاد پر واجب رہے گی۔

اب یہ جدا رہائش چاہے الگ مکان کی صورت میں ہو یا الگ پورشن کی شکل میں، جگہ ایسی ہو جہاں لڑکی کا مکمل اختیار ہو اور کسی کی مداخلت نہ ہو تو شوہر کی ذمہ داری پوری ہو جائے گی بیوی اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے جیسا کہ بہشتی زیور میں مذکور ہے (عبارت نیچے دلائل میں مذکور ہے)

امید ہے کہ اس قدر تفصیل تشفی کے لیے کافی ہے ۔

بہشتی زیور میں ہے:

” گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے توبس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کادعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو۔ (بہشتی زیور، رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

تجب السكني لها عليه في بيت خال عن اهله و اهلها الا ان تختار ذلك كذا في العينين شرح الكنز.(الفتاوي الهنديه:ج-١/ص:٥٧٨-كتاب الاطلاق/ باب النفقات)

دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ہے:

“بیوی کے لیے شوہر سے جھگڑنا یا بدتمیزی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ شرافت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہے منجملہ حقوق کے یہ بھی ہے کہ اس کے مکان کا علیحدہ انتظام ہو، لیکن اگر شوہر کی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ علیحدہ مکان کا بند وبست کرے یا اس کی وجہ سے اس کے لیے اور وسائل کھڑے ہوسکتے ہیں مثلاً بیوی کا (شوہر کی غیرموجودگی میں) تنہا رہنا، یا شوہر کے لیے اپنے والدین کی دیکھ ریکھ کرنا جب وہ لڑکے کے پاس رہنے پاس رہنے یا سامان وغیرہ لانے کے لیے خدمت کے محتاج اور ضرورت مند ہوں، ایسی صورت میں بیوی کو حق رفاقت ادا کرتے ہوئے شوہر کی ذمہ داریوں اور پریشانیوں میں شریک ہونا چاہیے، نیز مل جل کے مسائل حل کرلینے چاہئیں۔

اور اگر بیوی کو شوہر کے والدین کے ساتھ رہنے میں پریشانیوں کا سامنا ہے تو شوہر کے والدین کا بہو کو اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور کرنا مناسب نہیں بلکہ انہیں علیحدہ رہنے کی اجازت دیدینی چاہیے، شوہر بیوی کے حقوق اس کے اعتبار سے اور والدین کے ان کے اعتبار سے ادا کرنے کی کوشش کرے۔”

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:1/3/1441

عیسوی تاریخ: 29/10/2019

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں